سورة النسآء - آیت 37

الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَيَكْتُمُونَ مَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ ۗ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

جو خود بخل (44) کرتے ہیں، اور لوگوں کو بخل کا حکم دیتے ہیں، اور اللہ نے انہیں جو فضل دیا ہے اسے چھپاتے ہیں، اور ہم نے کافروں کے لیے بڑا رسوا کن عذاب تیار کر رکھا ہے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 37 سے 38) ربط کلام : اس سے پہلے والدین، عزیز و اقارب، یتامی، مساکین، پڑوسیوں اور مسافروں کے ساتھ مالی تعاون کرنے کا حکم ہے۔ اس لیے یہاں بخل کی مذمت کی گئی ہے۔ اس فرمان میں اللہ تعالیٰ نے مال و اسباب کو اپنا فضل قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے سرفراز فرمائے ان کا فرض ہے کہ وہ بخل کرنے کی بجائے سخاوت کا مظاہرہ کریں۔ بخل کا ماحول پیدا کرنے یا مستحق حضرات پر خرچ نہ کرنے کا حکم دینے اور مال کو چھپا کر رکھنے کی بجائے لوگوں کو صدقہ وخیرات کرنے کی تلقین کرنی چاہیے۔ مال چھپا چھپا کر رکھنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر خرچ کرنا چاہیے۔ جو لوگ بخل کرنے کے ساتھ دوسروں کو بخل کے لیے کہتے ہیں ایسے ناشکروں اور نافرمانوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے نہایت ہی رسوا کن عذاب تیار کیا ہے۔ یہاں صرف خرچ کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے خرچ کرنے کا حکم دیا ہے۔ جو لوگ نمود ونمائش اور دوسروں پر اپنی دھاک بٹھانے کے لیے خرچ کرتے ہیں درحقیقت وہ لوگ اللہ تعالیٰ اور آخرت پریقین نہیں رکھتے۔ کیونکہ انکا اللہ اور آخرت پر یقین ہوتا تو یہ بطور احسان، نمود و نمائش اور لوگوں سے خوشامد کی صورت میں اپنے صدقہ کا معاوضہ نہ لیتے۔ اگر ان کا آخرت پر یقین ہوتا تو یہ دنیا میں عارضی شہرت کی خاطر آخرت کا دائمی اجر ضائع نہ کرتے۔ اس ہلکے پن اور جلد بازی کا حقیقی سبب شیطان کا پھسلانا اوراُکسانا ہے۔ شیطان تو آدمی کا بدترین ساتھی ہے۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ ضَرَبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () مَثَلَ الْبَخِیْلِ وَالْمُتَصَدِّقِ کَمَثَلِ رَجُلَیْنِ عَلَیْھِمَا جُبَّتَانِ مِنْ حَدِیْدٍ قَدِ اضْطُرَّتْ أَیْدِیْھِمَا إِلٰی ثَدِیِّھِمَا وَتَرَاقِیْھِمَا فَجَعَلَ الْمُتَصَدِّقُ کُلَّمَا تَصَدَّقَ بِصَدَقَۃٍ انْبَسَطَتْ عَنْہُ حَتّٰی تَغْشٰی أَنَامِلَہٗ وََتَعْفُوَ أَثَرَہٗ وَجَعَلَ الْبَخِیْلُ کُلَّمَا ھَمَّ بِصَدَقَۃٍ قَلَصَتْ وَأَخَذَتْ کُلُّ حَلْقَۃٍ بِمَکَانِھَا قَالَ أَبُوْ ھُرَیْرَۃَ (رض) فَأَنَا رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ () یَقُوْلُ بِإِصْبَعِہٖ ھٰکَذَا فِیْ جَیْبِہٖ فَلَوْ رَأَیْتَہٗ یُوَسِّعُھَا وَلَا تَتَوَسَّعُ) [ رواہ البخاری : کتاب اللباس، باب جیب القمیص من عند الصدر وغیرہ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے بخیل اور صدقہ دینے والے کی مثال دی کہ اس کی مثال دو آدمیوں کی طرح ہے جو ہاتھ، سینے اور حلق تک فولادی قمیض پہنے ہوئے ہوں۔ صدقہ دینے والا جب بھی صدقہ کرتا ہے تو اس کا جبہ کشادہ ہوجاتا ہے اور وہ اس کی انگلیوں تک بڑھ جاتا ہے اور قدموں کو ڈھانک لیتا ہے اور بخیل جب صدقہ کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا جبہ اس سے چمٹ جاتا ہے یہاں تک ہر حلقہ اپنی جگہ پر جم جاتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم (ﷺ) کو دیکھا آپ اپنی انگلیوں سے اپنے گریبان کی طرف اشارہ کرکے بتا رہے تھے کہ تم دیکھو گے کہ وہ اس کو کھولنا چاہے گا لیکن وہ نہیں کھلے گا۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ النَّبِیَّ () قَالَ مَامِنْ یَوْمٍ یُّصْبِحُ الْعِبَادُ فِیْہِ إِلَّا مَلَکَانِ یَنْزِلَانِ فَیَقُوْلُ أَحَدُھُمَا اَللّٰھُمَّ أَعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا وَیَقُوْلُ الْآخَرُ اللّٰھُمَّ أَعْطِ مُمْسِکًا تَلَفًا) [ رواہ البخاری : کتاب الزکاۃ، باب قول اللّٰہِ تعالیٰ فأما من أعطی واتقی وصدق بالحسنیٰ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا ہر صبح دو فرشتے اترتے ہیں ان میں سے ایک یہ آواز لگاتا ہے اے اللہ! خرچ کرنے والے کو اور عطا فرما۔ دوسرا یہ آواز لگاتا ہے اے اللہ! نہ خرچ کرنے والے کا مال ختم کردے۔“ مسائل : 1۔ بخل کرنے والے کو اللہ تعالیٰ ذلت آمیز عذاب دیں گے۔ 2۔ نمود و نمائش کے لیے خرچ کرنے والے شیطان کے ساتھی ہیں۔ تفسیر بالقرآن : شیطان بد ترین ساتھی ہے : 1۔ شیطان انسان کا دشمن ہے۔ (البقرۃ :168) 2۔ شیطان کی رفاقت کا بدترین انجام۔ (الفرقان : 27، 29) 3۔ شیطان بے وفائی سکھلاتا ہے۔ (الحشر :16) 4۔ شیطان بدترین ساتھی ہے۔ (النساء :38) 5۔ شیطان نے حضرت آدم (علیہ السلام) کے ساتھ دشمنی کی۔ (الاعراف : 20تا22)