مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ وَمَن يُؤْمِن بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ ۚ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
آدمی کو کوئی مصیبت (٩) اللہ کے حکم کے بغیر نہیں پہنچتی، اور جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہے، اللہ اس کے دل کو صبر و استقامت کی راہ دکھاتا ہے، اور اللہ ہر چیز کا پورا علم رکھتا ہے
فہم القرآن: ربط کلام : دنیا میں ایمانداروں کو پہنچنے والی تکالیف کی حقیقت اور اس میں راہنمائی۔ پچھلی آیت میں قیامت کے دن کو ہار جیت کا دن قرار دیا گیا ہے۔ ہارنے والے کفار، مشرکین اور منافقین ہوں گے جو دنیا میں اللہ اور اس کے رسول کی خاطر کسی نقصان کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ ان کے مقابلے میں جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی خاطر ہرقسم کے نقصان کو سے برداشت کرتے ہیں۔ ان کے بارے میں ارشاد ہوا کہ انہیں جو مصیبت آتی ہے وہ اللہ کے اذن سے ہی آتی ہے۔ جو شخص سچے دل کے ساتھ اللہ پر ایمان لائے اور اس کی رضا کی خاطر مصائب برداشت کرے ایک وقت آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے دل کی راہنمائی کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ اس مختصر فرمان میں مومن کو تین انداز میں تسلی دی گئی ہے۔ 1۔ اے مومنوں گھبرانے کی ضرورت نہیں جو مصیبت تمہیں آتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے اذن کے مطابق آتی ہے۔ یعنی کوئی مصیبت اپنے آپ نازل نہیں ہوتی بلکہ وہ اللہ کے حکم سے نازل ہوتی ہے۔ جو ایماندار کے لیے اجر کا باعث اور نافرمان کے لیے عذاب ثابت ہوتی ہے۔ 2۔ اللہ کے حکم سے نازل ہونے والی مصیبت جب کسی ایماندار پر آتی ہے تو اس کے گناہوں کا کفارہ بنتی ہے جس سے ایماندار کے ا یمان میں نہ صرف اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ اپنے رب کا پہلے سے زیادہ قرب محسوس کرتا ہے اور اسے اپنے گناہوں کی معافی کی توفیق ملتی ہے، یہی وہ ہدایت ہے جو مصیبت کے وقت ایماندار شخص کو نصیب ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں نافرمان شخص مصیبت کے وقت اپنے رب کا مزید نافرمان بن جاتا ہے۔ یاد رہے کہ ایماندار پر آنے والی مصیبت کی دواقسام ہوتی ہے ایک مصیبت آزما ئش کے طور پر آتی ہے۔ (البقرۃ:155) دوسری ایماندار کی اپنی کسی کوتاہی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ ( الشوریٰ:30) 3۔ ﴿وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ﴾کے الفاظ استعمال فرما کر ایماندار کو تسلی دی گئی ہے کہ یہ کبھی نہ سوچنا کہ جو کفار کی طرف سے یا کسی اور صورت میں تمہیں تکلیف پہنچتی ہے اللہ تعالیٰ اس سے بے خبر ہے۔ ایسا ہرگز نہیں کیونکہ وہ ایمانداروں کے صبر واستقلال اور کفار کے مظالم کو اچھی طرح جانتا ہے، اسے یہ بھی معلوم ہے کہ ایماندار لوگ صرف اپنے رب کے لیے تکلیفیں برداشت کرتے ہیں۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) وَعَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ مَا یُصِیْبُ الْمُسْلِمَ مِنْ نَّصَبٍ وَّلَا وَصَبٍ وَلَا ھَمِّ وَّلَا حُزْنٍ وَّلَا اَذًی وَّلَا غَمٍّ حَتَّی الشَّوْکۃِ یُشَاکُھَا اِلَّا کَفَّرَ اللّٰہُ بِھَامِنْ خَطَایاہُ) (رواہ البخاری : باب ماجاء فی کفارۃ المرض) ” حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابوسعید (رض) نبی کریم (ﷺ) کا یہ فرمان بیان کرتے ہیں کوئی بھی مسلمان کسی طرح کی تھکاوٹ، درد، فکر، غم، تکلیف اور پریشانی میں مبتلا ہو یہاں تک کہ اس کو کانٹا بھی چبھے تو اللہ تعالیٰ اسے گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے۔“ (عن أُمَّ سَلَمَۃَ زَوْجَ النَّبِیِّ (ﷺ) تَقُولُ سَمِعْتُ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) یَقُولُ مَا مِنْ عَبْدٍ تُصِیبُہُ مُصِیبَۃٌ فَیَقُولُ إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ ” اللَّہُمَّ أْجُرْنِی فِی مُصِیبَتِی وَأَخْلِفْ لِی خَیْرًا مِنْہَا إِلاَّ أَجَرَہُ اللَّہُ فِی مُصِیبَتِہِ وَأَخْلَفَ لَہُ خَیْرًا مِنْہَا“ ) (رواہ مسلم : باب مَا یُقَالُ عِنْدَ الْمُصِیبَۃِ) ” آپ (ﷺ) کی زوجہ ام سلمہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو یہ کہتے ہوئے سنا آپ نے فرمایا کہ جب کسی بندے کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ یہ دعا پڑھتے ہم اللہ کے لیے ہیں اور اسی کی طرف لوٹائے جانے والے ہیں۔ اے اللہ! میری مصیبت دور فرما اور اس کے مقابلے میں بہتر اجر عطا فرما۔“ اللہ تعالیٰ اس مصیبت کو دور کردیتے ہیں اور اس کے مقابلے میں اسے بہتری عطا فرماتے ہیں۔“ مسائل: 1۔ ہر مصیبت اللہ کے اِ ذن سے نازل ہوتی ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ ہر مصیبت اور چیز کو جانتا ہے۔ 3۔ جو شخص سچے دل کے ساتھ اللہ پر ایمان لائے اور اس پر استقامت اختیار کرے اللہ تعالیٰ اس کی رہنمائی کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ کن لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا ہے : 1۔ ظالموں کو ہدایت نہیں ملتی۔ (البقرۃ:258) 2۔ کافروں کو ہدایت نہیں دی جاتی۔ (النساء :168) 3۔ فاسقوں کو ہدایت سے نہیں دی جاتی۔ (المائدۃ:108) 4۔ جھوٹوں کو ہدایت نہیں ملتی۔ (الزمر :3) 5۔ اللہ تعالیٰ کی توفیق کے بغیر کوئی ہدایت نہیں پا سکتا۔ (الاعراف :43) 6۔ ہدایت وہی ہے جسے اللہ تعالیٰ ہدایت قرار دے۔ (البقرۃ:120) 7۔” اللہ“ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ (البقرۃ :213) 8۔ ہدایت اللہ کے اختیار میں ہے۔ (القصص :56) 9۔ مشرک اللہ کی ہدایت سے محروم ہوتا ہے۔ (النساء :48)