سورة المنافقون - آیت 2

اتَّخَذُوا أَيْمَانَهُمْ جُنَّةً فَصَدُّوا عَن سَبِيلِ اللَّهِ ۚ إِنَّهُمْ سَاءَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا لیا ہے، وہ (لوگوں کو) اللہ کی راہ سے روکتے ہیں، ان کے کرتوت یقیناً بہت ہی برے ہیں

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 2 سے 3) ربط کلام : منافق صرف جھوٹ نہیں بولتا بلکہ جھوٹی قسمیں بھی اٹھاتا ہے۔ منافق دنیا کے فائدے کی خاطر منافقت اختیار کرتا ہے۔ جب اسے کسی نقصان یا اپنی بے عزتی کا خطرہ محسوس ہو تو اس سے بچنے کے لیے جھوٹی قسم اٹھانے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ اس طرح وہ اللہ کے نام کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ منافق نہ صرف خود صراط مستقیم سے ہٹ جاتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی سیدھے راستے سے روکتا ہے۔ منافق کا جھوٹی قسمیں کھانا اور لوگوں کو ” اللہ“ کی راہ سے روکنا بدترین عمل ہے کیونکہ منافق دنیا کے فائدے کی خاطر ایسا کرتا ہے اس لیے اسے فائدہ نظر آئے تو وہ اپنے ایمان کا اظہار کرتا اور بظاہر مسلمانوں جیسا کردار اختیار کرتا ہے، جب اسے اللہ کی راہ میں نقصان اٹھانا پڑے تو کفار جیسا کردار پیش کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے برے کردار کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہریں ثبت کردی ہیں جس وجہ سے وہ حقیقت کو سمجھ نہیں سکتے۔ ﴿صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ فَہُمْ لَا یَرْجِعُوْنَ﴾ (البقرۃ:18) ” بہرے، گونگے، اندھے ہیں پس وہ نہیں پلٹتے۔“ مسائل: 1۔ منافق اپنی قسموں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ 2۔ منافق خود اللہ کے راستے سے ہٹے ہوتے ہیں ا ورلوگوں کو بھی اللہ کے راستے سے روکتے ہیں۔ 3۔ منافق کے برے کردار اور اخلاق کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔ 4۔ منافق دنیا کے فائدے کی خاطر ایمان اور اسلام کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔