يُرِيدُ اللَّهُ لِيُبَيِّنَ لَكُمْ وَيَهْدِيَكُمْ سُنَنَ الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ وَيَتُوبَ عَلَيْكُمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
اللہ چاہتا ہے کہ تمہارے لیے (احکام کو) بیان کردے (37) اور ان (اچھے) لوگوں کی راہ پر ڈال دے جو تم سے پہلے تھے، اور تمہارے ساتھ بھلائی کرے، اور اللہ بڑا علم والا، بڑی حکمتوں والا ہے
فہم القرآن : (آیت 26 سے 28) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ عورتوں کے حقوق اور دیگر مسائل کے بارے میں دنیا کے دوبڑے مذاہب یہود و نصاریٰ نے بہت سے حقائق چھپا رکھے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان مسائل کو کھول کھول کر بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ اس لیے کھول کر بیان کیے ہیں تاکہ تمہیں پہلے انبیاء اور صلحاء کا راستہ دکھلایا جائے اور تمہیں معلوم ہو کہ اللہ کے برگزیدہ لوگوں کی زندگی کا کیا اسلوب ہوا کرتا ہے تاکہ تم صالح زندگی اختیار کرکے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے حقدار بن جاؤ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنے کرم و فضل کے ساتھ توجہ کرنا چاہتا ہے۔ جو لوگ اپنے نفس کے پجاری، خواہشات کے بندے اور رسومات کے غلام بن چکے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم صراط مستقیم اور اللہ کے کرم سے محروم ہوجاؤ۔ یہ تم پر اللہ تعالیٰ کا خاص کرم ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے دین میں کوئی ایسی بات نہیں رکھی جو تمہاری قوت عمل سے باہر ہو۔ دینی احکام کو اس لیے آسان رکھا گیا کیونکہ انسان نہایت کمزور پیدا کیا گیا ہے۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ إِنَّ الدِّیْنَ یُسْرٌوَلَنْ یُّشَادَّ الدِّیْنَ أَحَدٌ إِلَّا غَلَبَہٗ فَسَدِّدُوْا وَقَارِبُوْا وَأَبْشِرُوْا وَاسْتَعِیْنُوْا بالْغُدْوَۃِ وَالرَّوْحَۃِ وَشَیْءٍ مِّنَ الدُّلْجَۃِ) [ رواہ البخاری : کتاب الإیمان، باب الدین یسر] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا دین آسان ہے کوئی شخص اسلام پر غالب نہیں آسکتا بلکہ دین ہی غالب ہوگا۔ اجروثواب کا راستہ اور میانہ روی اختیار کرو، لوگوں کو خوشخبریاں دو، صبح و شام اور رات کے کچھ حصے میں اللہ تعالیٰ کی رضا طلب کرتے رہو۔“ رسول کریم (ﷺ) اور صحابہ کرام (رض) کے بعد کچھ نام نہاد علماء اور جاہل صوفیوں نے مصنوعی تقویٰ، گروہی تعصبات اور دنیوی مفادات کی خاطر دین اسلام میں بے پناہ اضافے کیے۔ مذہبی پیشواؤں کی مجرمانہ حرکت، لوگوں کی بے علمی اور دین سے عدم دلچسپی کی وجہ سے آسان ترین دین آج لوگوں کو مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے یہ دین نہایت ہی آسان اور فطرت انسانی کے مطابق بنایا ہے۔ عادی مجرموں، پیشہ ور ظالموں اور اس پر جان بوجھ کر عمل نہ کرنے والوں کے سوا سب کے لیے دین آسان ہے۔ جو شخص خلوص نیت کے ساتھ اس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرے گا اسے نہ صرف دین آسان دکھائی دے گا بلکہ اس کی دنیا و آخرت کی مشکلات آسان ہوجائیں گی۔ بشرطیکہ اجتماعی ضابطوں پر اجتماعی طور پر اور انفرادی قوانین پر انفرادی سطح پر عمل پیرا ہوا جائے۔ اللہ تعالیٰ سے توفیق مانگنا : یقینا اسلام فطرت کے موافق اور آسان بنایا گیا ہے۔ انسانی طبائع کیونکہ ہمیشہ ایک جیسی نہیں رہتیں۔ دنیاوی ترغیبات، معاشرتی اور کاروباری مشکلات انسان پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں جن کی وجہ سے آدمی سستی، کم ہمتی اور بے توجہی کا شکار ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے سستی سے بچنے کی دعا مانگنی چاہیے۔ گرامی قدر رسول (ﷺ) بڑے اہتمام کے ساتھ اللہ کے حضور یہ دعائیں کیا کرتے تھے : (اَللّٰھُمَّ أَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِ کَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ) [ رواہ ابوداوٗد : کتاب الصلاۃ] ” الٰہی! اپنے ذکر، شکر اور اچھی طرح عبادت کرنے پر میری مدد فرما۔“ (اَللّٰھُمَّ اِنِّیْٓ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْکَسَلِ وَالْھَرَمِ وَالْجُبْنِ وَالْبُخْلِ) [ رواہ الترمذی : کتاب الدعوات] ” اے اللہ! میں سستی، بڑھاپے، بزدلی اور بخیلی سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو ہدایت دینا اور ان کی توبہ قبول کرنا چاہتا ہے۔ 2۔ بدکار لوگ نیک لوگوں کو بے حیا بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ 3۔ انسان کی کمزوری کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے احکام میں آسانی پیدا فرمائی ہے۔ تفسیر بالقرآن : دین تو آسان ہے : 1۔ بیماری یا سفر میں روزہ چھوڑ کر بعد میں گنتی پوری کرنا چاہیے۔ (البقرہ :184) 2۔ حالت سفر میں نماز قصر کی اجازت ہے۔ (النساء :101) 3۔ غسل یا وضو کے لیے پانی نہ ملے تو تیمم کا حکم۔ (المائدۃ:6) (تفصیل کے لیے دیکھیں میری کتاب ” دین تو آسان ہے‘‘)