لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيهِمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ ۚ وَمَن يَتَوَلَّ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ
مسلمانو ! یقیناً وہ لوگ (یعنی ابراہیم اور ان کے ساتھی) تم میں سے ان لوگوں کے لئے اچھے نمونہ (٦) ہیں جو اللہ کی ملاقات اور روز آخرت کی امید رکھتے ہیں، اور جو شخص منہ پھیر لے گا، تو بے شک اللہ بڑا بے نیاز، تمام تعریفوں کا سزا وار ہے
فہم القرآن: ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعوت اور استقامت ہراس شخص کے لیے نمونہ ہے جو اللہ اور آخرت پر یقین رکھتا ہے۔ انبیائے کرام میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) واحد پیغمبر ہیں جن کی سیرت طیبہ کو نبی آخرالزمان (ﷺ) اور آپ کی امت کے لیے نمونہ قرار دیا گیا ہے۔ جس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ابو الانبیاء حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نبی آخر الزمان (ﷺ) کے جد امجد اور ملت حنیف کے داعی ہیں ابراہیم (علیہ السلام) کا راستہ مشکل ترین راستہ ہے۔ اسے وہی شخص اختیار کرے گا جو اللہ کی ملاقات پر ایمان اور قیامت کے قائم ہونے کا یقین رکھتا ہے۔ جو اس راستے سے پھر گیا اسے معلوم ہونا چاہیے کہ بے شک اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے بے نیاز اور تعریف کے لائق ہے۔ ارشاد ہوا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے اسوہ حسنہ کو وہی شخص اپنائے گا جو اللہ کی ملاقات اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے۔ ایسے مؤمن کو بڑی سے بڑی مشکل بھی آسان دکھائی دیتی ہے، کیونکہ اسے یقین ہوتا ہے کہ قیامت ہر صورت قائم ہونی ہے اور مجھے اپنے رب کے حضور پیش ہو کر اپنے نیک اعمال کا اجر پانا ہے۔ جو شخص اس راستے کو اختیار نہ کرے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے غنی اور تعریف کے لائق ہے۔ دوسرے مقام پر ابراہیم (علیہ السلام) کے طریقے کو چھوڑنا حماقت قرار دیا ہے۔ ” دین ابرہیمی سے وہی بے رغبتی کرے گا جس نے اپنے آپ کو حماقت میں ڈال لیا ہے، بلا شک ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو دنیا میں چن لیا اور آخرت میں وہ صالحین میں سے ہوگا۔ (البقرۃ:130) الْغَنِیُّ: غنی کا معنی ہے ہر لحاظ سے بے نیاز اور مستغنی وہ صرف ” اللہ“ کی ذات ہے۔ کسی کے عبادت کرنے سے اس کی بادشاہی اور عظمت میں اضافہ نہیں ہوتا ہے اور کسی کے کفر و شرک سے اس کی بادشاہی اور عظمت میں کوئی کمی نہیں آتی۔ ( عَنْ أَبِی ذَرٍّ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) فِیمَا رَوَی عَنِ اللَّہِ تَبَارَکَ وَتَعَالَی أَنَّہُ قَالَ یَا عِبَادِی إِنَّکُمْ لَنْ تَبْلُغُوا ضَرِّی فَتَضُرُّونِی وَلَنْ تَبْلُغُوا نَفْعِی فَتَنْفَعُونِی یَا عِبَادِی لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَآخِرَکُمْ وَإِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ کَانُوا عَلَی أَتْقَی قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مِنْکُمْ مَا زَادَ ذَلِکَ فِی مُلْکِی شَیْئًا یَا عِبَادِی لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَآخِرَکُمْ وَإِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ کَانُوا عَلَی أَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مَا نَقَصَ ذَلِکَ مِنْ مُلْکِی شَیْئًا یَا عِبَادِی لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَآخِرَکُمْ وَإِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ قَامُوا فِی صَعِیدٍ وَاحِدٍ فَسَأَلُونِی فَأَعْطَیْتُ کُلَّ إِنْسَانٍ مَسْأَلَتَہُ مَا نَقَصَ ذَلِکَ مِمَّا عِنْدِی إِلاَّ کَمَا یَنْقُصُ الْمِخْیَطُ إِذَا أُدْخِلَ الْبَحْرَ یَا عِبَادِی إِنَّمَا ہِیَ أَعْمَالُکُمْ أُحْصِیہَا لَکُمْ ثُمَّ أُوَفِّیکُمْ إِیَّاہَا فَمَنْ وَجَدَ خَیْرًا فَلْیَحْمَدِ اللَّہَ وَمَنْ وَجَدَ غَیْرَ ذَلِکَ فَلاَ یَلُومَنَّ إِلاَّ نَفْسَہُ قَالَ سَعِیدٌ کَانَ أَبُو إِدْرِیسَ الْخَوْلاَنِیُّ إِذَا حَدَّثَ بِہَذَا الْحَدِیثِ جَثَا عَلَی رُکْبَتَیْہِ) (رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ و الآداب، باب تحریم الظلم) ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا : اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے میرے بندو! تم مجھے نقصان اور نفع پہنچانے کی طاقت نہیں رکھتے۔ میرے بندو! تمہارے تمام اگلے پچھلے، جن و انس سب سے زیادہ متّقی انسان کے دل کی طرح ہوجائیں تو میری سلطنت میں ذرّہ بھر اضافہ نہیں کرسکتے۔ میرے بندو! تمہارے اگلے پچھلے جن وانس سب بدترین انسان کی طرح ہوجائیں تو میری حکومت میں کوئی نقص واقع نہیں کرسکتے۔ میرے بندو! تمہارے اگلے پچھلے‘ جن وانس اگر سب کھلے میدان میں اکٹھے ہوجائیں اور مجھ سے مانگنے لگیں اور میں ہر ایک کی اس کی منہ مانگی مرادیں دے دوں تو میرے خزانوں میں اتنی کمی بھی واقع نہیں ہو سکتی جتنی سوئی کو سمندر میں ڈبونے سے واقع ہوتی ہے۔“ مسائل: 1۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اسوہ حسنہ ہر ایماندار کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ 2۔ جو شخص ابراہیم (علیہ السلام) کے اسوہ اور آخرت کا انکار کرے گا اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی پر وہ نہیں ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے بے نیاز اور تعریف کے لائق ہے۔ تفسیر بالقرآن: حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے امتحانات اور ان کا مقام و مرتبہ : 1۔ ابراہیم (علیہ السلام) امت محمدیہ کے لیے نمونہ ہیں۔ (الممتحنہ :4) 2۔ ابراہیم (علیہ السلام) کے طریقہ سے انحراف کرنے والابیوقوف ہے۔ (البقرۃ:13) 3۔ ابراہیم (علیہ السلام) نبی کریم (ﷺ) کے پیشوی ٰہیں۔ (النحل :123) 4۔ ابراہیم (علیہ السلام) بردبار اور نرم خو تھے۔ ( التوبہ :114) 5۔ ابراہیم (علیہ السلام) تمام امتوں کے پیشواہیں۔ (البقرۃ:124) 6۔ ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے دوست بنایا۔ (النساء :125) 7۔ ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنی بیوی اور نو مولود بچے کو بے آب وگیاہ وادی میں چھوڑ کر آنا بہت بڑی آزمائش تھا۔ (ابرہیم :37)