لَوْ أَنزَلْنَا هَٰذَا الْقُرْآنَ عَلَىٰ جَبَلٍ لَّرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْيَةِ اللَّهِ ۚ وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ
اگر ہم اس قرآن (١٥) کو کسی پہاڑ پر اتار دیتے، تو آپ اسے (اللہ کے حضور) جھکا ہوا اور اس کے خوف سے پھٹا ہوا پاتے، اور ہم یہ مثالیں انسانوں کے لئے اس لئے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ غور وفکر کریں
فہم القرآن: ربط کلام : جہنم کی آگ سے بچنے اور جنت میں داخل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور اس کے قرآن پر غور کرکے اپنے آپ کو سنوار لے۔ اللہ تعالیٰ نے جہنم سے بچنے اور جنت میں داخل ہونے کے لیے قرآن مجید جیسی عظیم اور مؤثر کتاب نازل فرمائی ہے۔ اس کی عظمت اور تاثیر کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ اگر ہم اس قرآن کو پہاڑ پر نازل کردیتے تو آپ دیکھتے کہ پہاڑ بھی اللہ کے خوف سے دب اور پھٹ جاتا۔ اللہ تعالیٰ اپنے ارشادات لوگوں کے سامنے اس لیے بیان فرماتا ہے تاکہ لوگ ان پر غور کریں اور اپنے کردار اور انجام کے بارے میں فکر کریں۔ قرآن مجید کی عظمت اور تاثیر کا ذکر کرتے ہوئے ” لَوْ“ کا لفظ استعمال فرمایا ہے اگر ہم قرآن مجید پہاڑ پر نازل کردیتے تو پہاڑ بھی اس کی عظمت اور تاثیر سے پھٹ جاتا۔ کچھ اہل علم نے اس کی یہ تفسیر کی ہے کہ پہاڑ بھی خلافت کے بار گراں سے پھٹ جاتا جس کا تذکرہ قرآن مجید میں یوں کیا گیا ہے۔ ہم نے بار امانت کو آسمانوں اور زمین پر پیش کیا تو انہوں نے اسے اٹھانے سے معذرت کی وہ اس سے ڈر گئے اور انسان نے اس کو اٹھالیا، بے شک انسان ظالم اور جاہل ہے۔ (الاحزاب :72) (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) إِنَّ اللَّہَ تَبَارَکَ وَتَعَالَی قَرَأَ طٰہٰ وَیٰس قَبْلَ أَنْ یَخْلُقَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ بِأَلْفِ عَامٍ، فَلَمَّا سَمِعْتِ الْمَلاَئِکَۃُ الْقُرْآنَ قَالَتْ طُوبَی لأُمَّۃٍ یَنْزِلُ ہَذَا عَلَیْہَا، وَطُوبَی لأَجْوَافٍ تَحْمِلُ ہَذَا، وَطُوبَی لأَلْسِنَۃٍ تَتَکَلَّمُ بِہَذَا) (رواہ الدارمی : باب فِی فَضْلِ سُورَۃِ طہ ویس (لم تتم دراستہ) قال النسائی ضعیف) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (ﷺ) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمانوں کی تخلیق سے ہزار سال پہلے سورۃ طٰہ اور یٰس کی تلاوت فرمائی۔ فرشتوں نے قرآن کی تلاوت سنی تو کہنے لگے اس امت کے لیے خوشخبری ہو جس پر قرآن نازل ہوگا، ان سینوں کے لیے مبارک ہو جو اس قرآن کو اٹھائیں گے اور ان زبانوں کو خوش آمدید ہو جو قرآن کی تلاوت کریں گی۔“ قرآن مجید کی بے انتہا تاثیر : (عَنْ عُمَرَبْنِ الخَطَّابِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) اِنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ بِھٰذَالْکِتَابِ اَقْوَامًاوَیَضَعُ بِہٖ اٰخَرِیْنَ) (رواہ مسلم : کتاب الصلوٰۃ، باب فضل من یقوم بالقراٰن) ” حضرت عمربن خطاب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : اس کتاب کے ذریعہ اللہ تعالیٰ بہت سی قوموں کو جو اس پر عمل کریں گی بام عروج پر پہنچائے گا اور بہت سی قوموں کو جو اس کو چھوڑ دیں گی انہیں ذلیل کر دے گا۔“ جس طرح ” اللہ“ کی ذات وصفات اور اس کے جمال وکمال کی انتہا نہیں اسی طرح اس کے کلام کی عظمت اور تاثیر کی بھی انتہا نہیں ہے۔ قرآن مجید کو جو بھی اخلاص اور توجہ سے پڑھتا اور سنتا ہے وہ اس پر ایمان لائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ حضرت عمر (رض) نے اپنی بہن سے سورۃ طٰہٰ کی ابتدائی آیات سنیں تو ایمان لانے پر مجبور ہوئے۔ ثمامہ بن اثال نے نبی (ﷺ) کو کعبہ میں قرآن پڑھتے ہوئے دیکھا تو اس قدر متاثر ہوا کہ اپنے کانوں سے روئی نکال دی اور قرآن مجید سنتے ہی آپ (ﷺ) پر ایمان لے آیا۔ ” حضرت ابی اسحاق کہتے ہیں کہ میں نے براء بن عازب (رض) سے سنا کہ ایک آدمی اپنے گھر میں سورۃ الکہف کی تلاوت کر رہا تھا تو اس کے گھوڑے نے بدکنا شروع کردیا۔ اس نے سلام پھیر کر آسمان کی طرف نظر اٹھائی تو اسے بادلوں کا ایک ٹکڑا نظر آیا جو اسے ڈھانپے ہوئے تھا اس نے اس کا تذکرہ نبی (ﷺ) کے سامنے کیا آپ نے فرمایا اے فلاں پڑھتے رہو یہ سکینت تھی جو قرآن کے لیے نازل ہوئی تھی یا قرآن کی وجہ سے نازل ہو رہی تھی۔“ (رواہ البخاری : باب علاَمَات النُّبُوَّۃِ فِی الإِسْلاَمِ) مسائل: 1۔ اگر اللہ تعالیٰ قرآن مجید پہاڑ پر نازل کردیتا تو قرآن کی عظمت اور تاثیر سے پہاڑ دب اور پھٹ جاتا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے لیے اپنے احکام اس لیے بیان کرتا ہے تاکہ لوگ ان پر غور کریں۔ تفسیربالقرآن : قرآن کی عظمت اور فضیلت : 1۔ قرآن مجید لاریب کتاب ہے۔ ( البقرہ :2) 2۔ قرآن مجید سرا پارحمت اور کتاب ہدایت ہے۔ (لقمان :3) 3۔ قرآن مجید بابرکت اور پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے۔ (الانعام :93) 4۔ قرآن مجید میں ہدایت کے متعلقہ ہر چیز واضح کی گئی ہے۔ (النحل :89) (المائدۃ:15) (المائدۃ:48)