هُوَ الَّذِي أَخْرَجَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مِن دِيَارِهِمْ لِأَوَّلِ الْحَشْرِ ۚ مَا ظَنَنتُمْ أَن يَخْرُجُوا ۖ وَظَنُّوا أَنَّهُم مَّانِعَتُهُمْ حُصُونُهُم مِّنَ اللَّهِ فَأَتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوا ۖ وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ ۚ يُخْرِبُونَ بُيُوتَهُم بِأَيْدِيهِمْ وَأَيْدِي الْمُؤْمِنِينَ فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ
اسی نے اہل کتاب (٢) کافروں کو ان کے گھروں سے نکال کر ان کے پہلے حشر (یعنی پہلی جلا وطنی) کی جگہ پہنچا دیا۔ مسلمانو ! تم تو سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ وہ (مدینہ سے) نکل جائیں گے، اور وہ سمجھتے تھے کہ ان کے قلعے انہیں اللہ کے عذاب سے بچا لیں گے، پس اللہ کا عذاب ان پر ایسی جگہ سے آیا جس کا وہ گمان بھی نہیں کرسکتے تھے، اور اللہ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا، چنانچہ وہ اپنے گھروں کو اپنے ہاتھوں اور مسلمانوں کے ہاتھوں خراب کرنے لگے، پس اے آنکھوں والے ! تم لوگ عبرت حاصل کرو
فہم القرآن: (آیت 2 سے 3) ربط کلام : اللہ تعالیٰ ہر چیز پر ہر اعتبار سے غالب ہے اس کے غالب ہونے کا ایک ثبوت۔ نبی معظم (ﷺ) مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لے گئے۔ آپ کی تشریف آوری سے پہلے اس کا نام یثرب تھا۔ یثرب میں رہنے والوں کی غالب اکثریت یہود پر مشتمل تھی۔ یہودیوں کا ہر لحاظ سے مدینہ اور اس کے گرد پیش کے علاقے پر تسلط تھا۔ نبی معظم (ﷺ) مدینہ تشریف لائے تو آپ نے بقائے باہمی کے اصول پر یہودیوں سے ایک معاہدہ کیا جو میثاق مدینہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس میں ایک شرط یہ تھی کہ آپس میں مل جل کر رہیں گے اور خطرہ کی صورت میں اکٹھے ہو کر مدینہ کا دفاع کریں گے۔ لیکن یہودیوں نے غزوہ بدر، اُحد، خندق اور دیگر مواقعوں پر مدینے کے منافقین اور مکہ کے کفار کی درپردہ حمایت جاری رکھی۔ یہاں تک کہ ایک موقع پر نبی (ﷺ) کو شہید کرنے کی کوشش کی جس کی تفصیل یہ ہے کہ آپ (ﷺ) ایک جھگڑے کے حل کے لیے یہودیوں کے قبیلہ بنو نضیر کے ایک محلے میں تشریف لے گئے۔ یہودیوں کو آپ کی آمد کا علم ہوا تو انہوں نے یہ سازش تیار کی کہ جب آپ مجلس میں بیٹھے ہوں تو مکان کی چھت سے بھاری پتھر پھینک کر آپ کو ختم کردیا جائے۔ آپ پروگرام کے مطابق وہاں تشریف لے گئے اور ابھی دیوار کے سایہ میں تشریف فرما ہوئے ہی تھے کہ آپ کو وحی کے ذریعے یہودیوں کی سازش کا علم ہوا تو آپ وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ ان حالات میں آپ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہ فیصلہ فرمایا کہ بنونضیر کو مدینہ سے نکال باہر کیا جائے۔ آپ (ﷺ) نے انہیں پیغام بھیجا کہ اپنا سامان لے کر مدینہ سے نکل جاؤ اور پورے علاقے کو خالی کر دو۔ قریب تھا کہ یہودی اپنا سازوسامان لے کر نکل جاتے لیکن رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی نے انہیں پیغام بھیجا کہ تمہیں اپنے گھر بار اور علاقہ نہیں چھوڑنا چاہیے کیونکہ میں دوہزار آدمیوں کے ساتھ تمہاری حفاظت کے لیے پہنچ جاؤں گا، بنوقریظہ اور بنو غطفان بھی تمہاری مدد کریں گے۔ اس پر بنو نضیر کے سردار حی بن اخطب کا حوصلہ بڑھا اور اس نے علاقہ چھوڑنے کی بجائے مسلمانوں سے مقابلہ کرنے کا عزم کرلیا۔ نبی معظم (ﷺ) نے اس صورت حال میں بنو نضیر کا محاصرہ کیا بنو نضیر کی بستی کے چاروں طرف گنجان باغات تھے جس وجہ سے ان کی طرف پیش قدمی کرنے میں دقت پیش آئی اس لیے آپ نے چند درخت کاٹنے کا حکم دیا، اس پر منافقین اور یہودیوں نے شور مچایا کہ یہ جہاد نہیں فساد فی الارض ہے۔ اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے رب ذوالجلال نے فرمایا کہ وہی ذات ہے جس نے پہلے ہی حملے میں اہل کتاب کے کفار کو ان کے گھروں سے نکال باہر کیا حالانکہ تم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ وہ لڑائی کے بغیر اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوں گے کیونکہ انہیں یقین تھا کہ ان کے قلعے انہیں اللہ کی گرفت سے بچالیں گے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی گرفت اس طرح کی جس کا وہ خواب و خیال بھی نہیں کرسکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کا ان کے دلوں پر اس طرح رعب ڈال دیا کہ ایک طرف مسلمان ان کا سازوسامان اٹھا رہے تھے اور دوسری طرف وہ خود اپنے گھروں کو مسمار کررہے تھے۔ یادرہے کہ اللہ کے رسول نے انہیں یہ اختیار دیاتھا کہ جس قدر اپنا سازوسامان لے جاسکتے ہو اسے اٹھانے کی تمہیں اجازت دی جاتی ہے اس لیے یہودی اپنے مکانوں کے دروازے اور سامان اکھاڑ اکھاڑ کرلے جارہے تھے باقی ماندہ سامان مسلمانوں نے اکٹھا کرلیا۔ یہودیوں کے لیے یہ ایسا اندوہ ناک لمحہ تھا کہ جس کا اس سے پہلے وہ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ اس لیے ارشاد فرمایا ہے کہ اے آنکھیں رکھنے والو! اسے کھلی آنکھوں کے ساتھ دیکھو اور پوری بصیرت کے ساتھ غورو فکر کرو اور اس سے عبرت حاصل کرنے کی کوشش کرو۔ اس کسم پرسی کے عالم میں کچھ یہودی شام کی طرف چلے گئے اور باقی نے خیبر میں جاکر پناہ لی جنہیں حضرت عمر (رض) کے دور میں خیبر سے نکال دیا گیا۔ اگر اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاں یہ بات نہ لکھی ہوتی کہ یہودیوں کو جلاوطن کیا جائے گا تو وہ دنیا میں انہیں سخت ترین عذاب دیتا اور آخرت میں ان کے لیے آگ کا عذاب ہوگا۔ ” لِاَوَّلِ الْحَشْرِ“ کے اہل علم نے دو مفہوم اخذ کیے ہیں۔ ایک جماعت کا خیال ہے کہ پہلے حشر سے مراد نبی (ﷺ) کے دور میں یہودیوں کا مدینہ سے اخراج ہے، دوسرا حشر وہ ہے جب یہودیوں کو حضرت عمر (رض) کے زمانے میں جزیرۃ العرب سے نکال دیا گیا۔ دوسری جماعت کا نظر یہ ہے کہ ” لِاَوَّلِ الْحَشْرِ“ سے مراد مسلمانوں کا پہلے مرحلے میں یہودیوں کے خلاف اکٹھا ہونا ہے۔ ابھی مسلمان یہودیوں کے خلاف اکٹھے ہوئے ہی تھے کہ یہودی مرعوب ہو کر خود بخود مدینہ چھوڑ کر خیبر کی طرف روانہ ہوگئے۔ ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ نبی (ﷺ) نے یہودیوں اور عیسائیوں کو حجاز کے علاقے سے جلاوطن کردیا۔ جب رسول اکرم (ﷺ) نے خیبر پر غلبہ پایا تو آپ نے ارادہ کیا کہ وہاں سے یہودیوں کو جلا وطن کیا جائے کیونکہ اس علاقے پر جب غلبہ حاصل ہوا تو یہ زمین اللہ، اس کے رسول (ﷺ) اور مومنین کی ہوگئی تھی۔ یہودیوں نے رسول مکرم (ﷺ) کی خدمت میں درخواست کی وہ زمینوں اور باغات میں کام کریں گے اور انہیں پھلوں سے نصف حصہ دیا جائے۔ اس پر رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا جب تک ہم پسند کریں گے تمہیں یہاں رہنے دیں گے یہاں تک کہ حضرت عمر (رض) نے ان کو اپنے دور خلافت میں شام کے ملک میں تیما اور اریحا بستی کی جانب جلا وطن کردیا۔“ (رواہ البخاری : باب مَا کَان النَّبِیُّ (ﷺ) یُعْطِی الْمُؤَلَّفَۃَ قُلُوبُہُمْ وَغَیْرَہُمْ مِنَ الْخُمُسِ وَنَحْوِہِ) (کیونکہ یہودی شرارتوں اور سازشوں سے باز نہیں آتے تھے۔) مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کو مدینہ سے نکلنے پر مجبور کیا حالانکہ وہ سمجھتے تھے کہ ہم قلعہ بند ہو کر اپنی حفاظت کرسکیں گے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے مدینہ کے اہل کتاب کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب ڈال دیا۔ 3۔ یہودی اپنے آپ کو مدینہ میں بڑا طاقتور سمجھتے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا کردیئے جس سے یہودی مدینہ سے نکلنے پر مجبور ہوئے۔ 4۔ دشمن کی ذلّت اور بربادی سے عبرت حاصل کرنی چاہیے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ نے مدینہ کے اہل کتاب کو دنیا میں ذلیل کیا اور آخرت میں ان کے لیے جہنم کی آگ ہوگی۔