أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ تَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِم مَّا هُم مِّنكُمْ وَلَا مِنْهُمْ وَيَحْلِفُونَ عَلَى الْكَذِبِ وَهُمْ يَعْلَمُونَ
کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھاجنہوں نے ایک ایسی قوم سے دوستی (١١) کرلی، جن پر اللہ ناراض ہوچکا ہے، نہ وہ لوگ تم میں سے ہیں، اور نہ ان میں سے، اور جانتے ہوئے جھوٹی بات پر قسم کھاتے ہیں
فہم القرآن: (آیت 14 سے 15) ربط کلام : اللہ اور اس رسول کی اطاعت اور محبت کا تقاضا ہے کہ مسلمان ان لوگوں کے ساتھ دلی دوستی نہ رکھیں جن پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ نبی (علیہ السلام) کے دور میں منافقوں کی حالت یہ تھی کہ اگر انہیں مسلمانوں کی طرف سے فائدہ پہنچتا تو وہ سر عام مسلمانوں کی حمایت کرتے اگر انہیں کسی آزمائش کا سامنا کرنا پڑتا اور دوسروں کی طرف سے فائدہ پہنچتا دکھائی دیتا تو وہ کفار اور یہودیوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے۔ اس پرنبی (ﷺ) اور آپ کے صحابہ (رض) کو ارشاد ہوا کہ کیا تم نے ان لوگوں کے بارے میں غور نہیں کیا جو ایسے لوگوں کے ساتھ دوستی رکھتے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہوچکا ہے۔ یہ منافق نہ تمہارے ساتھ ہیں اور نہ ہی یہود و کفارہ کے ساتھ ہیں۔ جب انہیں منافقت سے منع کیا جاتا تو وہ جھوٹی قسمیں اٹھاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے لیے شدید عذاب تیار کر رکھا ہے اور وہ جو کرتے ہیں برا ہی کرتے ہیں۔ مسلسل منافقت کرنے کی وجہ سے منافق پر ایسا وقت آتا ہے کہ وہ سمجھنے لگتا ہے کہ اب تک میری گرفت نہیں ہوئی لہٰذا میں اپنے کردار اور مؤقف میں سچا ہوں کچھ لوگوں کو سمجھایا جائے تو وہ کھلے الفاظ میں کہتے ہیں جو ہم کرتے ہیں ” اللہ“ کو ایسے ہی منظور ہے۔ یہ کہنا بھی اللہ پر جھوٹ بولنے کے مترادف ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ جھوٹ، فریب اور منافقت کو پسند نہیں کرتا۔ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ مَثَلُ الْمُنَافِقِ کَمَثَلِ الشَّاۃِ الْعَائِرَۃِ بَیْنَ الْغَنَمَیْنِ تَعِیْرُإِ لٰی ھٰذِہٖ مَرَّۃً وَ إِلٰی ھٰذِہٖ مَرَّۃً) (رواہ مسلم : کتاب صفات المنافقین وأَحکامھم) ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا منافق کی مثال اس بکری کی طرح ہے جو دو ریوڑوں کے درمیان پھرتی ہے کبھی ایک ریوڑکی طرف جاتی ہے کبھی دوسرے کی طرف۔“ (عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ لِکُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ عِنْدَ اِسْتِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِوَفِیْ رَوَایَۃٍ لِکُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرْفَعُ لَہٗ بِقَدَرِ غَدْرِہٖ اَ لَاوَلَا غَادِرَ اَعْظَمُ غَدْرًا مِنْ اَمِیْرِ عَامَّۃٍ) (رواہ مسلم : کتاب الجہاد والسیر، باب تحریم الغدر) ” حضرت ابو سعید (رض) بیان کرتے ہیں نبی مکرم (ﷺ) نے فرمایا قیامت کے دن ہر عہد شکن انسان کی دبر کے نزدیک جھنڈا ہوگا۔ ایک روایت میں ہے ہر عہد شکن کے لیے قیامت کے دن جھنڈا ہوگا‘ جو اس کی عہد شکنی کے مطابق بلند کیا جائے گا۔ خبردار! سربراہ مملکت کی عہد شکنی سب سے بڑی ہوتی ہے۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں پر غضب نازل کیا۔ 2۔ منافق پر بھی ” اللہ“ کا غضب ہوتا ہے۔ 3۔ منافق نہ مسلمانوں کا ساتھی ہوتا ہے اور نہ دوسروں کا۔ 4۔ منافق جھوٹ بولتے ہیں۔ 5۔ منافقت بدترین عمل ہے۔ 6۔ اللہ تعالیٰ نے منافقوں کے لیے شدید ترین عذاب تیار کر رکھا ہے۔ تفسیربالقرآن: منافق کا کردار اور اس کی سزا : 1۔ منافق دغا باز اور ریا کار ہونے کے ساتھ بے توجہگی کے ساتھ نماز پڑھتا ہے۔ (النساء :142) 2۔ منافق کے کلمہ پر اعتبار نہیں کیونکہ وہ جھوٹا ہوتا ہے۔ (المنافقون :1) 3۔ منافق کی قسم پر اعتبار نہیں کیونکہ وہ اسے ڈھال کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ (المنافقون :2) 4۔ منافق کفار سے دوستی رکھتا ہے۔ (البقرۃ:14) 5۔ منافقین کو دنیا وآخرت میں سزا ہوگی۔ (التوبہ :74) 6۔ منافقین پر اللہ تعالیٰ کی لعنت اور جہنم کا عذاب ہوگا۔ (الفتح :6) 7۔ اللہ تعالیٰ منافقین کو معاف نہیں کرے گا۔ (المنافقون :6) 8۔ منافقوں کے دلوں میں بیماری ہے۔ ان کو دردناک عذاب ہوگا۔ (البقرۃ:10) 9۔ اللہ تعالیٰ منافقوں کو دردناک عذاب میں مبتلا کریں گے۔ (التوبہ :79) 10۔ اگر آپ (ﷺ) منافق کے لیے ستر بار بھی بخشش طلب کریں اللہ انہیں معاف نہیں کرے گا۔ (التوبہ :80) 11۔ منافق ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ (التوبہ :68) 12۔ منافق جہنم کے نچلے طبقہ میں ہوں گے۔ (النساء :145)