سورة المجادلة - آیت 8

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ نُهُوا عَنِ النَّجْوَىٰ ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا نُهُوا عَنْهُ وَيَتَنَاجَوْنَ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِيَتِ الرَّسُولِ وَإِذَا جَاءُوكَ حَيَّوْكَ بِمَا لَمْ يُحَيِّكَ بِهِ اللَّهُ وَيَقُولُونَ فِي أَنفُسِهِمْ لَوْلَا يُعَذِّبُنَا اللَّهُ بِمَا نَقُولُ ۚ حَسْبُهُمْ جَهَنَّمُ يَصْلَوْنَهَا ۖ فَبِئْسَ الْمَصِيرُ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اے میرے نبی ! کیا آپ ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو سرگوشی (٧) سے روک دئیے گئے تھے، پھر انہیں جس بات سے روک دیا گیا تھا وہی دوبارہ کرنے لگتے ہیں، اور گناہ، ظلم اور رسول اللہ کی نافرمانی کے لئے سرگوشی کرتے ہیں، اور جب وہ لوگ آپ کے پاس آتے ہیں تو آپ کو اس طرح سلام کرتے ہیں جس طرح اللہ نے آپ کو سلام نہیں کیا ہے، اور اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ ہم جو کچھ کہتے ہیں اس پر اللہ ہمیں سزا کیوں نہیں دیتا ہے، ان کے لئے جہنم کافی ہے جس میں وہ جلتے رہیں گے، پس وہ برا ٹھکانا ہے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: ربط کلام : اللہ تعالیٰ اپنے علم، اقتدار اور اختیار کے اعتبار سے ہر وقت انسان کے ساتھ ہوتا ہے اس لیے لوگوں کی سرگوشیوں کو جانتا ہے۔ وہ قیامت کے دن لوگوں کو بتلائے گا کہ جو وہ کیا کرتے تھے لیکن اس کے باروجود لوگ اپنی روش سے باز نہیں آتے۔ لوگوں کو یہ بات بتلانے اور سمجھانے کا مقصد یہ ہے کہ کفار، منافق اور برے لوگ اپنی روش سے بازآجائیں۔ لیکن برے لوگ اپنی روش سے باز آنے کی بجائے اس میں آگے ہی بڑھے جاتے ہیں۔ نبی (ﷺ) کے دور میں منافقین اور کفار کی حالت یہ تھی کہ وہ گناہ، ظلم اور آپ کی مخالفت کرنے کے لیے خفیہ مجالس میں منصوبہ بندی کرتے تھے کہ اسلام کی ترقی اور آپ (ﷺ) کے مقام کو لوگوں کی نظروں میں کس طرح ختم کیا جائے۔ اس کے لیے اہل مکہ دارالندویٰ میں اجلاس کرتے، منافق مسجد ضرار میں منصوبے بناتے اور یہودی راعنا کے لفظ کو مخصوص انداز میں ادا کرتے اور آپ سے ملاقات کرتے وقت آپ کو اس طرح سلام کہتے جس کی اللہ تعالیٰ نے اجازت نہیں دی یعنی اللہ تعالیٰ کے بتلائے ہوئے طریقہ کے خلاف دعا، سلام کرتے تھے۔ برے لوگ اپنے کردار اور انداز پرنظر ثانی کرنے کی بجائے کہتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ کو ہمارے الفاظ اور انداز پسند نہ ہوتے تو وہ ہمیں ضرور عذاب دیتا۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام کی مخالفت اور نبی کریم (ﷺ) کی گستاخی کرنے والوں کے لیے جہنم کافی ہے جو بدترین جگہ ہے۔ اس میں کفار، منافقین اور نبی (ﷺ) کی گستاخیاں کرنے والوں کو پوری پوری سزادی جائے گی۔ ” حضرت عائشہ (رض) بیان فرماتی ہیں کہ کچھ یہودی نبی اکرم (ﷺ) کے پاس آئے انہوں نے آپ سے مخاطب ہو کر کہا السام علیکم یعنی تم پر موت واقع ہو۔ حضرت عائشہ نے جواباً کہا تم پر بھی موت واقع ہو، ” اللہ“ تم پر لعنت کرے اور اپنا غضب نازل کرے۔ نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا اے عائشہ ! نرمی اختیار کرو سختی اور ترش کلامی نہ کرو عائشہ (رض) نے عرض کی اے اللہ کے نبی! آپ نے ان کی بات نہیں سنی؟ آپ نے فرمایا جو میں نے انہیں جواب دیا ہے تو نے اسے نہیں سنا؟ میری بات ان کے بارے میں قبول ہوگئی ہے اور ان کی بات میرے حق میں قبول نہیں ہوئی۔“ (رواہ البخاری : باب الرفق فی الامر کلہ) (عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُول اللَّہِ () قَالَ إِذَا کَانَ ثَلاَثَۃٌ فَلاَ یَتَنَاجَی اثْنَانِ دُونَ وَاحِدٍ) (صحیح مسلم : باب تحریم مناجاۃ الاثنین) ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے ہمیں حکم دیا کہ جب تین آدمی بیٹھے ہوں تو ان میں سے دو آدمی آپس میں سر گوشی نہ کیا کریں۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے بری سرگوشیاں کرنے سے منع کیا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نبی (ﷺ) پر سلام بھیجتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو گناہ، ظلم اور نبی اکرم (ﷺ) کی نافرمانی کرنے سے منع کیا ہے۔ 4۔ نبی (ﷺ) کی گستاخی کرنے والے جہنم میں جائیں گے۔ 5۔ جہنم ہر اعتبار سے بدترین جگہ ہے۔ تفسیربالقرآن : اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو ہرقسم کے گناہ اور نبی (ﷺ) کی نافرمانی سے منع کیا ہے : 1۔ اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو برباد نہ کرو۔ (محمد :33) 2۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور نافرمانی سے بچو۔ (المائدۃ:92) 3۔ آپ (ﷺ) فرما دیں کہ میرے رب نے ظاہری اور پوشیدہ بے حیائی اور گناہ کے کاموں سے منع کیا ہے۔ (الاعراف :33) 4۔ مجھے منع کیا گیا ہے کہ میں ان کی عبادت کروں جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو۔ (الانعام :56) 5۔ اللہ تمھیں منع کرتا ہے کہ تم ان سے دوستی کرو جنھوں نے تمھارے دین میں جھگڑا کیا اور تمھیں تمہارے گھروں سے نکالا۔ (الممتحنہ :9) 6۔ جو نبی (ﷺ) دیں اسے لیا جائے جس سے آپ نے منع کیا ہے اسے چھوڑ دیاجائے۔ (الحشر :7)