وَإِنْ أَرَدتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنطَارًا فَلَا تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا ۚ أَتَأْخُذُونَهُ بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِينًا
اور اگر تم ایک بیوی کے بدلے دوسری بیوی (28) کرنا چاہو، اور ان میں سے ایک کو مال کثیر دیا تھا، تو اس میں سے کچھ واپس نہ لو، کیا تم (وہ مال) اس پر بہتان باندھ کر اور صریح گناہ کر کے لینا چاہتے ہو
فہم القرآن : (آیت 20 سے 21) ربط کلام : عورتوں کے حقوق وفرائض کا تذکرہ جاری ہے۔ بیوی کی کوئی بات ناگوار ہو تو پھر بھی اس کے ساتھ گزارا کرنا چاہیے‘ بصورت دیگر طلاق دیتے ہوئے اس سے حق مہر واپس لینے کی اجازت نہیں۔ پہلے حکم تھا اگر بیوی کی کوئی عادت ناگوار ہو تب بھی اس کے ساتھ اچھے طریقے سے رہنا چاہیے اور جبرًا کسی عورت کو نکاح میں لینا یا بیوی کی کسی چیز پر قبضہ کرنا جائز نہیں۔ اب اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ اگر بیوی کے ساتھ نباہ کی کوئی صورت باقی نہ رہے اور خاوند نے بیوی بدلنے کا فیصلہ کرلیا ہو تو ایسی صورت میں اس کو دیا ہوا حق مہر یا کوئی تحفہ بے شک وہ کتنا ہی گرانقدر اور قیمتی کیوں نہ ہو اس میں کچھ بھی واپس لینے کی اجازت نہیں۔ پہلی آیت میں اس بات کی اجازت تھی کہ اگر عورت بدکاری کا ارتکاب کرے یا حد سے زیادہ گستاخی کرے تو اس کا حق مہر ضبط کیا جا سکتا ہے۔ اب اس اجازت کو غلط استعمال کرنے سے منع کرنے کے لیے حکم دیا ہے کہ بلاوجہ عورت پر الزام لگا کر اسے دی ہوئی چیز واپس لینا اللہ تعالیٰ کے نزدیک تہمت لگانے کے مترادف اور بہت بڑا گناہ ہے۔ بیوی کو ہبہ کی ہوئی چیز اس لیے واپس نہیں لی جا سکتی جب کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے ساتھ خلوت اور پختہ عہد کرچکے ہوں۔ ﴿اَفْضٰی﴾ کا معنی ہے ” بلا تکلّف ایک دوسرے کے قریب ہونا“ جس سے مراد میاں بیوی کی قربت ہے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ اگر میاں بیوی نے مجامعت نہ بھی کی ہو تو پھر بھی بیوی سے حق مہر لینا جائز نہیں۔ پختہ عہد کا مفہوم نکاح ہے کیونکہ عورت نکاح کے وقت اپنے آپ کو برضاء و رغبت خاوند کے حوالے کرتی ہے۔ قرآن مجید نے دوسرے مقام پر یہ ارشاد فرمایا کہ : ﴿وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَیْنَکُمْ ﴾[ البقرۃ:227] ” باہمی محبت کو فراموش نہ کرو۔“ جس کا مقصد یہ ہے کہ طلاق ہونے کے باوجود میاں بیوی میں دشمنی کا رویّہ پیدا نہیں ہونا چاہیے۔ مسائل : 1۔ بیوی کو چھوڑتے وقت اس کو ددیئے ہوئے تحائف واپس لینا بڑا گناہ ہے۔