لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۖ وَأَنزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ وَرُسُلَهُ بِالْغَيْبِ ۚ إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ
ہم نے یقیناً اپنے رسلووں کو کھلی نشانیوں (٢٣) کے ساتھ بھیجا، اور ان کے ساتھ کتابیں اور میزان اتارا، تاکہ لوگ عدل و انصاف قائم کریں، اور ہم نے لوہا پیدا کیا اس میں بڑا زور اور لوگوں کے لئے بہت سے فوائد ہیں، اور تاکہ کون (جہاد کرکے) بن دیکھے اللہ اور اس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے، بے شک اللہ قوت والا، زبردست ہے
فہم القرآن: ربط کلام : ” اللہ“ غنی ہے، وہی لوگوں کو سب کچھ عطا کرنے والا ہے یہ اس کی سب سے بڑی عطا ہے کہ اس نے لوگوں کی ہدایت کے لیے انبیاء مبعوث فرمائے۔ ان آیات کا پس منظر یہ ہے کہ غزوہ تبوک تمام غزوات سے مشکل ترین غزوہ تھا۔ سفر کے مسائل: اور دشمن کے ساتھ مقابلے کرنے مزید یہ کہ عرب کی گرمی اپنی انتہا پر تھی اور لوگوں کی فصلیں پکی ہوئی تھیں ان حالات میں نبی معظم (ﷺ) نے صحابہ کو تبوک کے لیے تیاری کا حکم دیا۔ اس موقعہ پر منافقین نے اپنے رشتہ دار مخلص مسلمانوں کو ناصرف تبوک کی طرف جانے سے روکا بلکہ انہیں مال خرچ کرنے سے بھی منع کیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ فرمان نازل فرمایا کہ یقیناً ہم نے رسولوں کو ٹھوس اور واضح دلائل کے ساتھ بھیجا اور ان پر کتابیں نازل کیں اور ایک میزان اتاری تاکہ وہ لوگوں کے درمیان عدل کے ساتھ فیصلہ کریں اور ہم نے لوہا بھی اتارا جو سخت ترین چیز ہے اس میں لوگوں کے لیے فائدے رکھ دیئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے البینات، الکتاب، المیزان اور لوہا اس لیے نازل کیا تاکہ وہ لوگوں کو آزمائے اور دیکھے کہ کون بن دیکھے اپنے رب پر ایمان لاتا ہے اور اس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے، لوگوں کو اس بات پر ایمان ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ پوری قوت رکھنے والا اور ہر اعتبار سے اپنا حکم نافذ کرنے پر غالب ہے۔ اس فرمان میں اللہ تعالیٰ نے چار چیزوں کا ذکر فرمایا ہے۔ اَلْبَیِّنَاتِ : اَلْبَیِّنَاتِ سے مراد معجزات ہیں جو اہم اور نازک ترین موقعہ پر انبیائے کرام (علیہ السلام) کو عطا کیے گئے تھے۔ معجزات سے ایک طرف نبی کو سکون اور ڈھارس حاصل ہوتی تھی اور دوسری طرف آپ کے مخالفین لاجواب ہوجایا کرتے تھے۔ جس طرح ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے وقت کے حکمران کو فرمایا کہ اگر تو واقعی ہی رب ہے تو سورج کو مشرق کی بجائے مغرب سے طلوع کر دے اس پر وہ حکمران حیران اور ششدر رہ گیا۔ (البقرۃ:258) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلے میں فرعون اور جادوگر ناکام ہوئے۔ حضرت مریم ( علیہ السلام) پر الزام لگا تو عیسیٰ ( علیہ السلام) کی گفتگو سے مخالفوں کی زبانیں گنگ ہوگئیں۔ نبی آخر الزمان (ﷺ) نے ہر موقعہ پر دلائل اور معجزات کی بنیاد پر کفار اور یہود ونصارٰی کو لاجواب کردیا۔ اَلْکِتَابَ: اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام (علیہ السلام) پر اس لیے کتابیں نازل فرمائیں تاکہ ان کی تعلیمات کی روشنی میں حق کو حق اور باطل کو باطل ثابت کردیں اور لوگوں کو ہر قسم کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان اور علم کی روشنی میں لاکھڑا کریں۔ اسی لیے قرآن مجید کو الفرقان کہا گیا ہے اس کے ذریعے دنیا میں شرک اور توحید، عدل اور ظلم کے درمیان امتیاز قائم ہوا۔ اَلْمِیْزَانَ: سورہ الشوریٰ کی آیت 17کی تفسیر کرتے ہوئے اَلْمِیْزَانَ کے بارے میں سورۃ الرحمن میں عرض ہوچکا ہے۔ اَلْمِیْزَانَ کا لفظ قرآن مجید میں 9مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ ارشاد ہوا کہ ہم نے ایک میزان نازل فرمایا ہے۔ ” اَلْمِیْزَانُ“ کے بارے میں اہل علم کے چار قسم کے خیالات ہیں جو اپنی اپنی تشریح کے مطابق حق پر مبنی ہیں۔1” اَلْمِیْزَانُ“ درحقیقت الکتاب کے لفظ کی تشریح ہے۔ 2 ” اَلْمِیْزَانُ“ سے مراد قرآن وسنت کی تعلیم ہے جس کے ذریعے انسان حق وباطل کے درمیان فرق کرتا ہے۔ 3” اَلْمِیْزَانُ“ سے مراد عقل سلیم ہے جس کی روشنی میں آدمی حق اور ناحق کی پہچان کرتا ہے۔ 4 ” اَلْمِیْزَانُ“ سے مراد دنیا کی کسی چیز کی پیمائش یا وزن کرنے کا وہ پیمانہ ہے جس کے ذریعے لوگ اپنا لین دین کرتے ہیں۔ جن آیات میں ” اَلْمِیْزَانُ“ کا لفظ ہے وہ درج ذیل ہیں۔ (الانعام : 152، الاعراف : 85، ھود : 84، 85، الشوریٰ: 17، الرحمن : 7، 8، 9، الحدید :25) 1۔” اَلْمِیْزَانُ“ اللہ تعالیٰ نے اس لیے نازل فرمایا تاکہ لوگوں کے درمیان ہر قسم کا عدل قائم کیا جائے اور لوگ ایک دوسرے پر زیادتی کرنے سے بچ جائیں اور ان کے درمیان عدل وانصاف کا اجتماعی نظام قائم ہوپائے۔ اَلْحَدِیْدَ: الحدید کا ذکر کرتے ہوئے انزلنا کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ اس لفظ کی وضاحت کرتے ہوئے بیان ہوچکا ہے کہ انزل کے دو معانی ہیں۔ 1۔ انزل کا معنٰی پیدا کرنا۔ 2۔ انزل بمعنٰی اتارنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے الحدید کے بارے میں فرمایا ہے کہ یہ جنگ کے دوران قوت کا باعث ہے۔ لوگوں کے لیے اس میں اور بھی فائدے رکھ دیئے گئے ہیں۔ اَلْبَیَّنَاتِ ،اَلْکِتَابَ، اَلْمِیْزَان اور اَلْحَدِیْدَ لوگوں کو اس لیے عطا کیے گئے ہیں تاکہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ آزمائے اور دیکھے کہ کون اپنے رب کو دیکھے بغیر اس پر ایمان لاتا ہے اس کی اور رسولوں کی مدد کرتا ہے۔ اللہ کی مدد کرنے سے مراد اس کے دین کی مدد کرنا ہے۔ اس کا فرمان ہے اے ایمان والو! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور کفار کے مقابلے میں تمہیں ثابت قدم فرمائے گا۔ کفار کے لیے ہلاکت اور ان کے اعمال کی بربادی ہے۔ (محمد : 7، 8) یہاں تک لوہے کی حیثیت اور اس کے فوائد کا تعلق ہے اس کے اَن گنت اور لاتعداد فوائد ہیں۔ تیر سے لے کر ایٹم بم اور سائیکل سے لے کر ہوائی جہاز لوہے کے بغیر تیار نہیں ہو سکتے۔ ارشاد ہوا کہ ” اللہ“ جاننا چاہتا ہے یعنی واضح کرنا چاہتا ہے کہ کون اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتا اور غیب پر ایمان لاتا ہے۔ غیب پر ایمان لانے کا ذکر فرما کر اشارہ دیا ہے کہ وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ اسلحہ کے لحاظ سے جس فرد یا قوم کو دوسرے پر برتری حاصل ہو۔ وہ دوسرے کے ساتھ عدل کرتی ہے یا ظلم کر کرتی ہے لوہے کا ذکر فرما کر مسلمانوں کو اشارۃً سمجھایا کہ اگر اللہ اور اس کے رسول اور اپنے دشمن پر برتری چاہتے ہو تو حالات کے مطابق لوہے کے استعمال کا طریقہ سیکھو۔ (عُقْبَۃَ بْنَ عَامِرٍ یَقُولُ سَمِعْتُ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) وَہُوَ عَلَی الْمِنْبَرِ یَقُولُ وَأَعِدُّوا لَہُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّۃٍ أَلاَ إِنَّ الْقُوَّۃَ الرَّمْیُ أَلاَ إِنَّ الْقُوَّۃَ الرَّمْیُ أَلاَ إِنَّ الْقُوَّۃَ الرَّمْیُ) (رواہ مسلم : باب فضل الرمی) ” حضرت عقبہ بن عامر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (ﷺ) سے سنا آپ منبر پر فرمارہے تھے کہ اپنے استطاعت کے مطابق جہاد کے لیے تیار رہو۔ جان لو ! کہ قوت تیراندازی میں ہے، خبردار! تیر میں ہے۔ جان رکھو! قوت تیراندازی میں ہے۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام (علیہ السلام) کوٹھوس دلائل، الکتاب، المیزان اور لوہا عطا فرمایا۔ 2۔ جنگ میں لوہے کی بڑی اہمیت ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے لوہے میں بے شمار فوائد رکھے ہیں۔ 4۔ اللہ تعالیٰ جاننا چاہتا ہے کہ کون غیب پر ایمان لاتے ہوئے اس کے دین اور رسول کی مدد کرتا ہے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ بڑا طاقت ور اور ہر اعتبار سے غالب ہے۔ تفسیربالقرآن : اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کی کس طرح مدد فرمائی : 1۔ اللہ تعالیٰ نے غار ثور میں نبی (ﷺ) کی مدد فرمائی۔ (التوبہ : ٤40) 2۔ ابرہہ کے مقابلے میں بیت اللہ کا تحفظ فرمایا۔ (الفیل) 3۔ غزوہ خندق میں اللہ تعالیٰ نے نبی (ﷺ) اور صحابہ (رض) کی مدد فرمائی۔ ( الاحزاب :9) (آل عمران :123) (القصص :5) (التوبہ :25) (آل عمران :126) ( النصر :1) (الروم :5)