اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ ۖ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا ۖ وَفِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٌ ۚ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ
تم سب جان لوکہ بے شک دنیا کی زندگی (١٩) کھیل، تماشہ، زیب و زینت، آپس میں ایک دوسرے پر فخر کرنا، اور مال و دولت میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنا ہے، اس کی مثال اس بارش کی ہے جس سے اگنے والا پودا محض دھوکے کا سامان ہے
فہم القرآن: ربط کلام : لوگ جس دنیا کی خاطر اپنے رب کے ارشادات کا انکار اور ان کی تکذیب کرتے ہیں اس دنیا کی حیثیت اور حقیقت۔ اے لوگو! یہ حقیقت اچھی طرح جان لو کہ دنیا کی زندگی کھیل، تماشا، زیب و زینت، فخر وغرور، مال اور اولاد میں تقابل اور تفاخر کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس دنیا کی مثال بارش کی طرح ہے جب بارش ہوتی ہے تو اس سے فصلیں اگتی اور لہلہا اٹھتی ہیں جس سے زمیندار خوش ہوتا ہے۔ اس کے سامنے کھیتی پروان چڑھتی ہے، رنگ پکڑتی ہے پھر اس کا رنگ زرد ہوجاتا ہے پھر وہ ریزہ ریزہ ہوجاتی ہے یہی مثال دنیا دار شخص کی ہے کہ وہ زندگی بھر کماتا رہتا ہے لیکن موت کے وقت اس کے پاس حسرت کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ وہ بڑی حسرتوں کے ساتھ خالی ہاتھ دنیا سے رخصت ہوتا ہے اور جونہی اس کی آنکھ بند ہوتی ہے وہ آخرت کے شدید عذاب میں مبتلا کیا جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں جس نے دنیا اور اس کی لذّات پر فریفتہ ہونے کی بجائے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں زندگی بسر کی اس کے لیے اللہ کی طرف سے بخشش اور اس کی رضا مندی ہے۔ لوگو! غور کرو کہ دنیا کی زندگی کے مال و اسباب دھوکہ اور فریب کے سوا کچھ نہیں۔ اس آیت مبارکہ میں دنیا اور اس کے اسباب کے بارے میں چار الفاظ استعمال کیے گئے ہیں اور یہی دنیا کی حقیقت ہے۔ 1۔ دنیا کی زندگی کھیل اور تماشا ہے : کھیل، تماشے کی اچھی اور بری کئی اقسام ہیں کھیل اور تماشا آپس میں مترادف الفاظ ہیں جو ہر زبان میں اسی طرح استعمال ہوتے ہیں کھیل اور تماشے کے الفاظ ایسے کام پر بولے جاتے ہیں جو وقت گزارنے اور دل بہلانے کے لیے ہوتا ہے ان میں بہتر سے بہتر جو کھیل تماشا ہوتا ہے اس کے بھی دائمی اور مستقل نتائج نہیں ہوتے، ہر زبان میں کھیل اور تماشے کے الفاظ کسی بامقصد اور مستقل کام کے لیے استعمال نہیں ہوتے ان الفاظ کو عارضی اور محض وقت گزارنے والے کام کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ کھیل، تماشا بظاہر کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو پوری زندگی کھیل میں نہیں گزاری جاسکتی ہے، یہی دنیا اور اس کے اسباب کی حقیقت ہے کہ اگر انسان کی زندگی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں نہ ہو تو پوری کی پوری زندگی بے مقصد ہوجاتی ہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْکُہُ مَا لَا یَعْنِیہٖ) (رواہ الترمذی : کتاب الزہد) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا بلاشبہ آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ فضول یعنی بے فائدہ باتوں کو چھوڑ دے۔“ 2۔ دنیا کا مال اور اسباب زیب وزینت کا باعث ہیں : اللہ تعالیٰ نے انسان کو طبعی طور پر جمالیاتی حس عطا فرمائی ہے جس بنا پر اپنے چہرے اور وجود کو سنوارنا، بہتر سے بہترین لباس زیب تن کرنا، اچھی سے اچھی سواری رکھنا اور رہائش اور بودوباش کے اعتبار سے خوبصورت سے خوبصورت ہونے کی خواہش رکھنا اور کوشش کرنا اس کی فطرت میں سمودیا گیا ہے۔ بے شک شریعت کے دائرہ میں رہ کر زیب و زینت اختیار کرنا جائز ہے۔ نبی اکرم (ﷺ) نے ایک موقع پر ایک پراگندہ بال اور گندے لباس والے شخص کو دیکھا تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ لیکن اس کا یہ معنٰی نہیں کہ مرد ہو یا عورت وہ دنیا کی زیب و زینت پر ہی فریفتہ ہو کر رہ جائے اور شریعت کی حدود اور اخلاقی قیود کو پامال کرتا چلا جائے ایسا شخص قیامت کے دن شدید عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ (عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) لَا یَدْخُلُ الجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِنْ کِبْرٍ فَقَالَ رَجُلٌ اِنَّ الرَّجُلَ یُحِبُّ اَنْ یَّکُوْنَ ثَوْبُہٗ حَسَنًا وَ نَعْلُہٗ حَسَنًا قَالَ اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی جَمِیْلٌ یُّحِبُّ الجَمَالَ اَلْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَ غَمْطُ النَّاسِ) (رواہ مسلم : باب تَحْرِیمِ الْکِبْرِ وَبَیَانِہِ) ” حضرت ابن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا : جس شخص کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہوگا، وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ ایک شخص نے کہا کہ بے شک ہر شخص پسند کرتا ہے کہ اس کا لباس اور جوتے اچھے ہوں آپ (ﷺ) نے فرمایا : بلاشبہ اللہ تعالیٰ خوب صورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ تکبر حق بات کا انکار کرنا اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے۔“ 3۔ دنیا کا مال واسباب تفاخر کا باعث ہیں : شریعت نے دنیا کی ترقی میں ایک دوسرے سے سبقت کرنے سے منع نہیں کیا البتہ اس بات کو ہرگز پسند نہیں کیا کہ مالدار، غریب پر، حاکم محکوم پر، طاقت ور کمزور پر، اکثریت رکھنے والا اقلیت پر فخرو غرور کا مظاہرہ کرے۔ شریعت کی تعلیم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی شخص کو کوئی نعمت عطافر مائے تو وہ دوسروں پر فخر کرنے کی بجائے تواضع اور انکساری اختیار کرے۔ فخر وغرور کرنے سے انسان دو سروں کی نگاہوں میں حقیر بنتا ہے اور تواضع اختیار کرنے سے آدمی کا احترام بڑھتا ہے۔ 4۔ تکاثر : تکاثر کا معنٰی ہے مال و اسباب میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنا۔ دین اسلام نے اخلاقی قیود کے اندر رہ کر مال و اسباب میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے سے نہیں روکا۔ قرآن مجید نے اس تکاثر کی نفی کی ہے جس میں اللہ اور اس کے رسول کی ہدایات کو پس پشت ڈال کر انسان مال، افرادی قوت، اقتدار، اختیار اور دیگر اسباب میں آگے بڑھنے کی کوشش کرے یہ تکاثر انسان کو دنیا میں اخلاقی طور پر اور آخرت میں انجام کے حوالے سے تباہ کردیتا ہے جس کی قرآن مجید نے ان الفاظ میں مذمت کی ہے۔ ﴿اَلْہٰکُمُ التَّکَاثُرُ﴾ (التکاثر :1) ” تمہیں مال کی ہوس نے ہلاکت میں ڈال رکھا ہے۔“ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) قَالَ لَوْ أَنَّ لِإِبْنِ آدَمَ وَادِیًا مِّنْ ذَھَبٍ أَحَبَّ أَنْ یَکُوْنَ لَہٗ وَادِیَانِ وَلَنْ یَمْلَأَ فَاہُ إِلَّا التُّرَابُ وَیَتُوْبُ اللّٰہُ عَلٰی مَنْ تَابَ) (رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب مایتقی من فتنۃ المال) ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا اگر آدم کے بیٹے کے پاس سونے کی ایک وادی ہو تو وہ پسند کرے گا کہ اس کے پاس سونے کی دو وادیاں ہوں۔ اس کے منہ کو مٹی کے علاوہ کوئی چیز نہیں بھر سکتی۔ اللہ جس پر چاہتا ہے کرم فرماتا ہے۔“ دنیا کے مال و اسباب کو اس کھیتی اور نباتات کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جو بارش کے بعد زمین سے نکلتی اور لہلہاتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ جسے دیکھ کر زمیندار خوش ہوتا ہے لیکن کچھ مدت کے بعد ہری بھری کھیتی زردی کا لباس پہن لیتی ہے اور بالآخر ریزہ ریزہ ہوجاتی ہے۔ موسم خزاں میں باغ خالی ٹہنیوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ گندم کی فصل پر غور فرمائیں کہ پکنے کے وقت جڑ سے لے کر سٹے تک زرد ہوجاتی ہے۔ صحرا کے رہنے والے اس مثال کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ویرانی کے وقت زمین پرنظر نہیں ٹکتی۔ مگر بارش کے بعد وہ زمین یوں دکھائی دیتی ہے جیسے اس نے سبز چادر اوڑھ لی ہو۔ لیکن تھوڑے دنوں کے بعد اس پر اگنے والی جڑی بوٹیاں اور گھاس خود بخود گل سڑ جاتے ہیں، یہی حال اس شخص کا ہوگا جس نے دنیا کی عیش و عشرت سے فائدہ اٹھایا لیکن اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت نہ کی۔ موت کے بعد اس کا کمایا ہوا مال اس کے لیے بے کار ثابت ہوگا اور آخرت میں اسے شدید عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ قَالَ نَامَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) عَلَی حَصِیرٍ فَقَامَ وَقَدْ أَثَّرَ فِی جَنْبِہِ فَقُلْنَا یَا رَسُول اللَّہِ لَوِ اتَّخَذْنَا لَکَ وِطَاءً فَقَالَ مَا لِی وَمَا للدُّنْیَا مَا أَنَا فِی الدُّنْیَا إِلاَّ کَرَاکِبٍ اِسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَۃٍ ثُمَّ رَاحَ وَتَرَکَہَا) (رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی أَخْذِ الْمَال، قال الشیخ البانی صحیح) ” حضرت عبد اللہ (رض) فرماتے ہیں نبی کریم (ﷺ) ایک چٹائی پر سوئے تو آپ کے پہلو پر چٹائی کے نشان پڑگئے۔ ہم نے عرض کی اللہ کے رسول! ہم آپ کے لیے اچھا سا بستر تیار کردیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا : میرا دنیا کے ساتھ تعلق ایک مسافر جیسا ہے جو کسی درخت کے نیچے تھوڑا سا آرام کرتا ہے پھر اسے چھوڑ کر آگے چل دیتا ہے۔“ مسائل: 1۔ دنیا کی زندگی کھیل تماشا، زیب وزینت، فخر و غرور اور مال و اولاد میں تفاخر کے سوا کچھ نہیں۔ 2۔ دنیا کی زندگی ایسی نباتات کی طرح ہے جو بارش کے بعد اگتی ہے لیکن ایک وقت کے بعد ریزہ ریزہ ہوجاتی ہے۔ 3۔ دنیا کے مال واسباب پر فخر کرنے والے شدید عذاب میں مبتلا کیے جائیں گے۔ 4۔ دنیا کی زندگی دھوکے کا سامان ہے جس نے اپنے آپ کو اس دھوکے سے بچا لیا اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف کرے گا اور اس پر راضی ہوگا۔ تفسیر بالقرآن: دنیا اور آخرت کا تقابل : 1۔ دنیا کھیل اور تماشا ہے۔ (الانعام :32) 2۔ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی عارضی ہے۔ (الرعد :26) 3۔ دنیا عارضی اور آخرت پائیدار ہے۔ (المؤمن :39) 4۔ مال اور اولاد دنیا کی زندگی کی زینت ہیں۔ (الکہف :46) 5۔ آخرت کے مقابلہ میں دنیا بہت کمتر ہے۔ (التوبہ :38) 6۔ جو چیز تم دیے گئے ہو یہ تو دنیا کا سامان اور زینت ہے۔ (القصص :60) 7۔ نہیں ہے دنیا کی زندگی مگر دھوکے کا سامان۔ (آل عمران :185) 8۔ دنیا کی زندگی محض دھوکے کا سامان ہے۔ (الحدید :20) 9۔ مال اور اولاد تمہارے لیے آزمائش ہیں۔ (التغابن :15)