فَأَمَّا إِن كَانَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ
پھر اگر وہ مرنے والا اللہ کے مقرب (٢٧) بندوں میں سے ہے
فہم القرآن: (آیت 88 سے 96) ربط کلام : قیامت پر ایمان لانے اور اس کے تقاضے پورے کرنے والے مقربین میں شامل ہوں گے۔ مرنے والا قیامت پر یقین رکھنے اور اس کے تقاضے پورے کرنے والا ہوگا تو وہ اپنے رب کے مقرب بندوں میں شامل ہوگا، اس کے لیے ہرقسم کی راحت، ذائقہ دار خوراک اور نعمتوں والی جنت ہوگی اور یہ اصحاب الیمین میں ہوگا اور اس پر اس کے رب کی طرف سے ہمیشہ ہمیش کے لیے سلامتی ہوگی۔ اگر وہ قیامت کو جھٹلانے والوں اور گمراہ لوگوں میں ہوا تو اس کی کھولتے ہوئے پانی سے مہمان نوازی کی جائے گی اور اسے جہنم میں جھونکا جائے گا۔ ” اَصْحَابَ الْیَمِیْنِ“ کا انعامات پانا اور ’’ اَصَحَاب الشِّمَالِ“ کا جہنم میں جھونکا جانا برحق ہے یعنی اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں۔ لہٰذا اپنے رب کی تسبیح بیان کریں۔ جو نیکوں کو پوری پوری جزادے گا اور بڑے لوگوں کو ٹھیک ٹھیک سزا دینے والا ہے۔ ( عَنْ عَائِشَۃَ (رض) قَالَتْ کَان النَّبِیُّ (ﷺ) یُکْثِرُ اَنْ یَّقُوْلَ فِیْ رُکُوْعِہٖ وَسُجُودِہٖ سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ یَتَاَوَّلُ الْقُرْآن) (رواہ البخاری : باب التسبیح والدعاء فی السجود) ” حضرت عائشہ (رض) بیان فرماتی ہیں نبی اکرم (ﷺ) اپنے رکوع اور سجدوں میں یہ دعا پڑھا کرتے تھے ” اے اللہ تو پاک ہے اور تیرے لیے حمد و ستائش ہے الٰہی مجھے معاف فرما۔ آپ اس آیت سے یہی مفہوم لیتے۔“