أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ
کیا تم نے اس آگ (٢٢) کے بارے میں غور کیا ہے جسے تم ہرے درخت سے نکالتے ہو
فہم القرآن: (آیت 71 سے 74) ربط کلام : پانی کے بعد آگ کا تذکرہ۔ جس طرح پانی عظیم نعمت ہے اور اس پر انسان کی زندگی کا انحصار اسی پر ہے اس کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا بلکہ دنیا میں پھلنے پھولنے والی کوئی چیز بھی نمو نہیں پاسکتی۔ ارشاد فرمایا کہ ہم نے ہر چیز کا انحصار پانی پر رکھا ہے لیکن پھر تم ایمان لانے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ (الانبیاء :30) جس طرح پانی کے بغیر زندگی باقی نہیں رہ سکتی اسی طرح انسان کی زندگی اور ترقی کے لیے آگ بھی ناگزیر ہے اگر آگ پیدا نہ کی جاتی توانسان اور حیوان کی زندگی کے درمیان معمولی فرق ہوتا اور انسان کسی صورت بھی ترقی نہ کرسکتا۔ آپ زندگی کے کسی شعبے پر غور فرمائیں اس کی ترقی میں بنیادی کردار آگ کا دکھائی دے گا۔ سائیکل سے لے کر ہوائی جہاز اور تیر سے لے کر ایٹم بم بنانے کے لیے آگ کی ضرورت ہے، یہاں تک انسان کی خوردونوش کا تعلق ہے آگ کے بغیر انسان روٹی بھی نہیں پکا سکتا۔ پہلے زمانے کے لوگ پتھر رگڑ کر آگ پیدا کرتے تھے اور قدیم عرب دو درختوں کی ہری بھری ٹہنیوں کو ایک دوسرے پر مار کر آگ حاصل کرتے تھے۔ جس سے اللہ تعالیٰ کی قدرت کا اظہار ہوتا ہے مرخ اور عفار درختوں کی ٹہنیاں سبز ہیں اور ان میں آگ نہیں پانی ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ ان سے آگ پیدا کرتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ صلاحیت بخشی کہ اس نے بے شمار چیزوں سے آگ حاصل کرنا شروع کردی لیکن انسان کی بے عقلی کا اندازہ کریں کہ بے شمار لوگ آگ کی پرستش کرتے ہیں۔ صرف اَن پڑھ نہیں بڑے بڑے ترقی یافتہ اور علم وفنون کی ڈگریاں رکھنے والے حضرات آگ کے سامنے جھکتے ہیں اور اسے حاجت روا، مشکل کشا سمجھتے ہیں حالانکہ آگ پیدا کرنے والا صرف ” اللہ“ ہے۔ اس لیے ارشاد ہوا کہ بس اپنے رب عظیم کی تسبیح پڑھاکریں جوہر کمزوری سے پاک اور ہرقسم کے شرک سے مبرا ہے۔ (عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍقَالَ فَکَانَ رَسُول اللَّہ إِذَا رَکَعَ قَال سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیمِ وَبِحَمْدِہِ ثَلاَثًا وَإِذَا سَجَدَ قَال سُبْحَانَ رَبِّیَ الأَعْلَی وَبِحَمْدِہِ ثَلاَثًا) (رواہ البیہقی : باب الْقَوْلِ فِی الرُّکُوعِ) ” عقبہ بن عامر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) جب رکوع کرتے تو تین مرتبہ یہ کلمات (سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیمِ وَبِحَمْدِہ) پڑھتے اور جب سجدہ کرتے تو تین دفعہ یہ کلمات (سُبْحَانَ رَبِّیَ الأَعْلَی وَبِحَمْدِہِ) پڑھتے۔ ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتیں ہیں کہ نبی اکرم (ﷺ) رکوع وسجود میں یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔ (سبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلاَئِکَۃِ وَالرُّوح) “ (رواہ ابوداؤد : بَابُ مَا یَقُول الرَّجُلُ فِی رُکُوعِہِ وَسُجُودِہِ، قال البانی صحیحہٌ) (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (ﷺ) کَلِمَتَانِ حَبِیْبَتَانِ إِلَی الرَّحْمَنِ، خَفِیْفَتَانِ عَلَیْ اللِّسَانِِ، ثَقِیْلَتَانِ فِیْ الْمِیْزَانِ سُبْحَان اللَّہِ وَبِحَمْدِہِ، سُبْحَان اللَّہِ الْعَظِیمِ) ( رواہ البخاری : کتاب التوحید) ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (ﷺ) نے فرمایا دو کلمے رحمٰن کو بڑے پسند ہیں زبان سے ادا کرنے میں آسان اور وزن کے لحاظ سے بھاری ہیں۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے ہی سرخ اور عفار درخت پیدا کیے جن سے پرانے زمانے کے لوگ آگ حاصل کرتے تھے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے ہی آگ بنائی ہے۔ 3۔ آگ سے انسان قوت حاصل کرتا ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں میں آگ بھی اس کی قدرت کی نشانی ہے۔ 5۔ انسان کو آگ سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ تفسیربالقرآن : اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کی ایک جھلک : 1۔ رات اور دن کو اللہ نے نشانیاں بنایا ہے۔ (بنی اسرائیل :12) 2۔ دن، رات، سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ ( حٰم السجدۃ:37) 3۔ آسمان اور زمین کی پیدائش، دن اور رات کے آنے جانے میں عقلمندوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ (آل عمران :190) 4۔ بے شک دن اور رات کے مختلف ہونے میں اور جو کچھ اللہ نے زمین و آسمان میں پیدا کیا ہے، اس میں لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ (یونس :6) 5۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے وجود میں اپنی قدرت کی نشانیاں رکھی ہیں۔ (الذاریات :21)