أَفَرَأَيْتُم مَّا تَحْرُثُونَ
کیا تم نے اس بیج (٢٠) کے بارے میں غور کیا ہے جسے تم بوتے ہو
فہم القرآن: (آیت 63 سے 67) ربط کلام : اللہ ہی انسان کو پیدا کرتا اور موت دیتا ہے اور وہی بیج سے کھیتی پیدا کرتا ہے۔ بیج اور کھیتی کا حوالہ دے کر انسان کو دوبارہ زندہ ہونے کا ثبوت دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے انسان کو اس کی تخلیق اور موت کا حوالہ دے کر سمجھایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی انسان کو پیدا کرنے والا ہے اور وہی اسے موت دینے کے بعد دوبارہ زندہ کرے گا۔ اب بیج اور کھیتی کی مثال دے کر انسان کو اپنے خالق ہونے اور قیامت کے دن زندہ کرنے کا ثبوت دیا ہے۔ ارشاد ہوا جو بھی تم بوتے ہو اس پر غور کرو کہ کیا اس سے فصل تم اگاتے ہو یا ہم اسے اگانے والے ہیں؟ اگر ہم چاہیں تو بیج کو زمین میں ہی ناکارہ کردیں، اگر ہم چاہیں تو لہلہاتے ہوئے باغوں اور ہر بھری کھیتیوں کو خاکستر کردیں اور تم مختلف قسم کے تبصرے کرتے رہ جاؤ اور یہ کہنے پر مجبور ہوجاؤ کہ ہم پر تاوان پڑگیا ہے، بلکہ کہو کہ ہمارے نصیب ہی پھوٹ گئے ہیں۔ بیج اور کھیتی کی مثال دے کر اللہ تعالیٰ نے بیک وقت اپنے خالق اور رازق ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ ایک زمیندار کو اپنی فصل پر صرف اتنا ہی اختیار ہے کہ وہ زمین بنانے اور ہموار کرنے کے بعد اس میں بیج ڈالے یا اس میں پودے لگائے۔ اس کے بعد بیج کواُگانا اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے اختیار میں نہیں۔ وہی بیج کو اس کی فطرت کے مطابق زمین میں نَم، حرارت اور ہوا پہنچاتا ہے۔ ان تین عناصر کے علاوہ بھی ایسے اسباب ہیں جن تک کسی زرعی سائنسدان کی اب تک رسائی نہیں اور نہ ہی بیج اگانے میں کسی کا کوئی عمل دخل ہے۔ صرف ایک ” رب“ کی ذات ہے جو بیج کو اگاتی ہے جس سے انسان اور ہر جاندار فائدہ اٹھاتا ہے۔ وہ چاہے تو بیج کو زمین میں بے کار کردے اور یہ بھی اسے اختیارہے کہ وہ سرسبز کھیتی اور اور لہلہاتے ہوئے پودوں کو بھس بنا کر رکھ دے۔ ایس صورت میں کھیتی کا مالک مختلف قسم کی توجیہات اور باتیں بنانے کے سوا کچھ نہیں کرسکتا۔ بالآخر یہ کہنے پر مجبور ہوگا کہ میں نے محنت کی اور بیج کے اخراجات برداشت کیے مگر یہ تو میرے لیے بوجھ اور چٹی ثابت ہوئے ہیں۔ بالآخر انسان یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ میرے نصیب ہی سڑ گئے ہیں اور میں محروم ہوگیا ہوں۔ اس فرمان میں اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو خالق، رازق اور مالک ثابت کرنے کے بعد یہ بھی ثابت کیا ہے کہ زمین میں کروڑوں نہیں بلکہ لاتعداد بیج اگتے ہیں اور کچھ اگنے کے بعد گل سڑ جاتے ہیں اور کچھ فصل کے طور پر تیار ہوتے ہیں جو تمہاری اور تمہارے جانوروں کی خوراک بنتے ہیں۔ یہی انسان کا حال ہے کچھ ایسے ہیں جو ماں کے پیٹ میں مر جاتے ہیں کچھ بچپن میں فوت ہوجاتے ہیں کچھ جوانی میں چل بستے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو اس قدر بوڑھے اور کمزور ہوجاتے ہیں جنہیں اپنے آپ کا ہوش نہیں ہوتا۔ مسائل: 1۔ انسان زمین میں بیج بوتا ہے مگر اسے اگانے والا صرف ” اللہ ہے۔ 2۔ ” اللہ“ چاہے تو بیج کو زمین میں ختم کردے اور چاہے تو لہلہاتے ہوئے کھیتیوں کو بھس بنادے۔ 3۔ کھیتی تباہ ہونے کی صورت میں اس کا مالک پریشان ہونے سوا کچھ نہیں کرسکتا۔ تفسیربالقرآن: اللہ تعالیٰ ہی کھیتی اور باغات پیدا کرنے والا ہے : 1۔ ” اللہ“ پانی سے تمہارے لیے کھیتی، زیتون، کھجور اور انگور اگاتا ہے۔ (النحل :11) 2۔ ” اللہ“ نے کھجوروں اور انگوروں کے باغات پیدا کیے ہیں۔ (المومنون :19) 3۔ ” اللہ“ نے زمین میں کھجوروں اور انگوروں کے باغات پیدا کیے۔ (یٰس :34) 4۔ ” اللہ“ نے پانی سے ہر قسم کی نباتات کو پیدا کیا۔ (الانعام :99) 5۔ اللہ تعالیٰ نے نباتات پیدا فرمائی۔ ( الانعام :100) 6۔ ” اللہ“ ہی نے باغات، کھجور کے درخت اور کھیتی پیدا کی جوذائقہ کے لحاظ سے مختلف ہیں۔ (الانعام :141) 7۔ دانے اور گٹھلی کو پھاڑنا، زندہ سے مردہ اور مردہ سے زندہ کرنا اللہ ہی کا کام ہے تم کہاں بہک گئے ہو؟ ( الانعام :95) 8۔ تمہارا رب ہر چیز کو پیدا کرنے والاہے اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں تم کہاں بہک گئے ہو ؟ (المومن :62) 9۔ اپنے پروردگار سے دعا کیجئے کہ وہ ہمارے لیے زمین میں سے نباتات پیدا فرمائے۔ (البقرۃ:61) 10۔ تمہارے لیے مسخر کیا نباتات کو زمین پر پھیلاکر، ان کی اقسام مختلف ہیں۔ (النحل :13) 11۔ اللہ ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے اسی کی عبادت کرو اور وہ ہر چیز پر کارساز ہے۔ (آل عمران :102) 12۔ اللہ ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے، سو تم اس کی عبادت کرو اور وہ ہر چیز پر کارساز ہے۔ (الانعام :102)