بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
میں شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان، بے حد رحم کرنے والا ہے
بسم اللہ الرحمن الرحیم سورۃ الواقعہ کا تعارف : یہ سورت مکہ معظمہ میں نازل ہوئی۔ اس کے تین رکوع اور چھیانوے (96) آیات ہیں۔ قرآن مجید نے قیامت کے مختلف مراحل کا ذکر کیا ہے اور ان مراحل کی جلالت و ہیبت کا منظر پیش کرتے ہوئے انہیں مختلف نام دئیے ہیں۔ قیامت کا دن زمین و آسمان پر بھاری ہوگا اور یہ اسرافیل کے صور سے یک دم واقع ہوجائے گا۔ قیامت اپنی ہیبت اور شدت کے اعتبار سے انتہائی خوفناک ہوگی اس لیے اسے الواقعہ کا نام دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی کے انکار کرنے سے قیامت ٹل نہیں سکتی۔ اس نے ہر صورت برپا ہو کر رہنا ہے اس لیے اسے الواقعہ کہا گیا ہے یعنی جس کے واقعہ ہونے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ اہل مکہ کی غالب اکثریت قیامت کی منکر تھی اس لیے وہ مختلف قسم کی باتیں اور بہانے پیش کرتے تھے۔ ایک موقع پر انہوں نے آپ (ﷺ) سے یہ سوال کیا کہ آپ کہتے ہیں کہ قیامت ہر چیز تہس نہس کر دے گی۔ کیا پہاڑ بھی اپنی جگہ سے ہل سکتا ہے؟ قرآن مجید نے اس کا جواب دیا کہ آپ سے پہاڑوں کے بارے میں استفسار کرتے ہیں انہیں بتلائیں کہ ہاں پہاڑوں کو اس طرح ریزہ ریزہ کردیا جائے گا کہ یہ مٹی کے ساتھ مٹی بن جائیں گے اور پوری زمین چٹیل میدان بنا دی جائے گی۔ دیکھنے والا اس میں کوئی نشیب و فراز نہیں دیکھے گا۔ ﴿وَّکُنْتُمْ اَزْوَاجًا ثَلٰثَۃً فَاَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃِ مَا اَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃِ وَاَصْحٰبُ الْمَشْئَمَۃِ مَا اَصْحٰبُ الْمَشْئَمَۃ﴾ (الواقعہ 7تا9) اور تم اس دن تین گروہوں میں تقسیم ہو گے۔ دائیں جانب والے ان کا کیا کہنا یہ نعمتوں والی جنت میں رہیں گے۔ اس میں ہر نبی کی امت کے آخری حصہ کے لوگ کم ہوں گے۔ دائیں جانب والے مرصّع تکیوں پر ٹیک لگا کر ایک دوسرے کے سامنے جلوہ فروز ہوں گے۔ ان کی خدمت کرنے کے لیے نو عمر بچے ہوں گے جو ان کے سامنے شراب کے جام پیش کریں گے اس شراب میں کسی قسم کا نشہ نہیں ہوگا۔ انہیں ہر قسم کا پھل اور پرندوں کا گوشت پیش کیا جائے گا اور چھپائے ہوئے موتیوں کی مانند حوریں پیش کی جائیں گی اور جنتیوں کو ہر طرف سے سلامتی کی صدائیں آئیں گی۔ مقربوں اور السّابقون کے بعد دوسرے درجے کے جنتیوں کو بھی السّابقون جیسی نعمتیں دی جائیں گی ان کے مقابلے میں بائیں جانب والے ہوں گے وہ جلتی ہوئی آگ، کھولتے ہوئے پانی اور کالے دھویں سے دوچار ہوں گے، نہ ان کے لیے ٹھنڈا پانی ہوگا اور نہ ہی انہیں آرام میسر ہوگا۔ ان کا سب سے بڑا قصور یہ ہوگا کہ وہ قیامت کو جھٹلایا کرتے تھے انہیں کھانے کے لیے زقوم کا درخت دیا جائے گا۔ جس سے ان کی بھوک ختم نہیں ہوگی اور یہ کھولتا ہوا پانی پیاسے ہونٹ کی طرح پینے کی کوشش کریں گے۔ الواقعہ کے آخر میں یہ بیان ہوا ہے کہ جو لوگ قیامت کا انکار کرتے ہیں انہیں اپنی موت یاد کرنی چاہیے۔