تَبَارَكَ اسْمُ رَبِّكَ ذِي الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ
بہت ہی بابرکت (٢٦) ہے آپ کے اس رب کا نام جو حلال اور عزت والا ہے
فہم القرآن: ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت اور نشانیوں کا ذکر کرنے کے بعد اس سورت کا اختتام اپنے مبارک نام اور جلال واکرام کے ذکر پر کیا ہے تاکہ لوگ اپنے رب کی قدرتوں، نعمتوں اور اس کے جلال کو یاد رکھیں۔ یہی وہ عقیدہ ہے جو انسان کو صحیح فکر اور راستے کی نشان دہی کرتا ہے۔ ﴿وَ لِلّٰہِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِھَا﴾(الاعراف :180) ” اور سب سے اچھے نام اللہ ہی کے، ہیں سو اسے انہی ناموں کے ساتھ پکاراکرو۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رِوَایَۃً قَالَ لِلّٰہِ تِسْعَۃٌ وَتِسْعُونَ اسْمًا مائَۃٌ إِلَّا وَاحِدًا لَا یَحْفَظُہَا أَحَدٌ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّۃَ وَہُوَ وِتْرٌ یُحِبُّ الْوِتْرَ) ( رواہ البخاری : باب للہ مائۃ اسم غیر واحد) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (ﷺ) نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں جو کوئی انہیں یاد کرلے گا وہ جنت میں داخل ہوگا اللہ ایک ہے اور ایک کو پسند کرتا ہے۔“ (بشرطیکہ اس کا عقیدہ اور عمل بھی اللہ تعالیٰ کے اسمائے گرامی کے مطابق ہو۔) باری تعالیٰ کا اسم اعظم ” اللہ“ ہے۔ یہ ایسا عظیم المرتبت اور عظیم الرّعب اسم عالی ہے جو صرف اور صرف خالق کائنات کی ذات کو زیبا اور اسی کے لیے مختص ہے۔ یہ ذات باری تعالیٰ کا ذاتی نام ہے اس اسم مبارک کے اوصاف اور خواص میں سے ایک خاصہ یہ بھی ہے کہ کائنات میں انتہا درجے کے کافر، مشرک اور بدترین باغی انسان گزرے ہیں اور ہوں گے۔ جن میں اپنے آپ کو داتا، مشکل کشا، موت و حیات کا مالک کہنے والے حتی کہ ” اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعَلٰی“ کہلوانے والے بھی ہوئے ہیں۔ مگر ” اللہ“ کے نام کی جلالت و ہیبت کی وجہ سے اپنے آپ کو ” اللہ“ کہلوانے کی کوئی جرأت نہیں کرسکا اور نہ کرسکے گا۔ مکے کے مشرک اپنے بتوں کو سب کچھ مانتے اور کہتے تھے لیکن بتوں کو ” اللہ“ کہنے کی جرأت نہیں کرسکے تھے۔ ” اللہ“ ہی انسان کا ازلی اقرار اور اس کی فطری آواز ہے جس بنا پر ہر کام ” بِسْمِ اللّٰہِ“ سے شروع کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ اسم مبارک اپنے آپ میں خا لقیت، مالکیت، جلالت و صمدیت، رحمن و رحیمیت کا ابدی اور سرمدی تصور لیے ہوئے ہے۔ قرآن مجید میں اللہ کا نام 2697مرتبہ وارد ہوا ہے۔ (عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَیْسٍ (رض) قَالَتْ قَالَ لِی رَسُول اللَّہِ (ﷺ) أَلاَ أُعَلِّمُکِ کَلِمَاتٍ تَقُولِینَہُنَّ عِنْدَ الْکَرْبِ أَوْ فِی الْکَرْبِ اللَّہُ ’’ اللَّہُ رَبِّی لاَ أُشْرِکُ بِہِ شَیْئًا“ ) (رواہ ابوداؤد : باب فِی الاِسْتِغْفَارِ) ” حضرت اسماء بن عمیس (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے مجھے فرمایا کیا میں تجھے ایسے کلمات نہ سکھاؤں جنہیں تو مصیبت کے وقت پڑھا کر! میں اللہ جو کہ میرا رب ہے اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراؤں گا۔“