أَكُفَّارُكُمْ خَيْرٌ مِّنْ أُولَٰئِكُمْ أَمْ لَكُم بَرَاءَةٌ فِي الزُّبُرِ
(اے اہل قریش !) کیا تمہارے کفار ان قوموں سے زیادہ بہتر (٢٠) ہیں، یا تمہارے لئے آسمانی کتابوں میں برا ءت ونجات لکھ دی گئی ہے
فہم القرآن: (آیت 43 سے 45) ربط کلام : قوم عاد، قوم ثمود، قوم لوط اور آل فرعون کا انجام ذکر کرنے کے بعد اہل مکہ کو زبردست انتباہ اور ایک سوال۔ آل فرعون کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ جب انہوں نے ہماری تمام نشانیوں اور ارشادات کو جھٹلادیا تو ہم نے انہیں اس طرح پکڑا جس طرح ایک طاقت ور اور غالب قوت والا پکڑا کرتا ہے۔ اے مسلمانو! کیا تمہارا مقابلہ کرنے والے کفار قوم عاد، قوم ثمود، قوم لوط اور آل فرعون سے بہتر اور زیادہ طاقت ور ہیں ؟ یا پھر پہلی کتابوں میں ان کے لیے کوئی معافی نامہ لکھ دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم بڑی مضبوط جماعت ہیں۔ انہیں کان کھول کر سن لینا چاہیے کہ وہ وقت دور نہیں کہ جب انہیں شکست فاش ہوگی اور یہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے۔ قرآن مجید نے اہل مکہ کو یہ وارننگ اس وقت دی جب کوئی شخص یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اہل مکہ کا اس قدر برا انجام ہوگا کیونکہ یہ سورت نبوت کے ابتدائی سالوں میں نازل ہوئی اور اس وقت مسلمانوں کی کسم پرسی کا حال یہ تھا کہ انہیں سر عام پیٹا جاتا تھا یہاں تک کہ کفار کے مظالم سے تنگ آکر کچھ لوگ حبشہ کی طرف ہجرت کرگئے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) اور حضرت سعد (رض) اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں کہ جب یہ آیات نازل ہوئیں تو ہماری سجھ میں یہ بات نہ آئی کہ ان آیات میں کون سی جماعت مراد ہے کہ جس کا برا انجام ہوگا۔ لیکن ان آیات کے نزول کے سات سال بعد بدر کے میدان میں یہ حقیقت کھل گئی کہ ان آیات کے مخاطب یہی لوگ تھے جن کا انجام ہمارے سامنے آچکا ہے اور نبی (ﷺ) نے بدر کے میدان میں انہی آیات کی تلاوت کی تھی۔ (تفسیرقرطبی، سورۃ القمر : 43تا46) مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے کسی کافر کو اپنی پکڑ سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے بڑی بڑی اقوام اور اہل مکہ کو ذلیل کردیا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب کے سامنے بڑی سے بڑی جماعت اور قوت کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔