وَآمِنُوا بِمَا أَنزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ وَلَا تَكُونُوا أَوَّلَ كَافِرٍ بِهِ ۖ وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا وَإِيَّايَ فَاتَّقُونِ
اور اس کتاب پر ایمان لاؤ (٩١) جو میں نے اتاری ہے اس کتاب کو سچ (٩٢) بتانے کے لیے جو تمہارے پاس ہے، اور اس کے سب سے پہلے منکر (٩٣) نہ بنو، اور میری آیتوں کے بدلے میں تھوڑی قیمت (٩٤) نہ لو، اور مجھ سے ڈرو
فہم القرآن : ربط کلام : بنی اسرائیل کو عظمت رفتہ کی یاد دہانی اور اللہ کا خوف دلانے کے بعد نصیحت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کو بلا چون و چرا تسلیم کرو اور دنیا کے مفاد کی خاطر ان سے روگردانی نہ کرو۔ سچائی کو قبول کرنے میں سب سے پہلے جو رکاوٹ پیش آیا کرتی ہے وہ دنیاوی مفاد، گروہی تعصبات اور آدمی کا قدیم رسومات ونظریات پر قائم رہنا ہے جنہیں چھوڑنا نہایت ہی مشکل ہوتا ہے۔ اس میں انسان کو وقتی مفادات، ماضی کے نظریات، آباء واجداد کی روایات اور معاشرے کی فرسودہ رسومات کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ ان کو چھوڑنے سے کئی قسم کے الزامات برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ آدمی ہمیشہ سے انہی زنجیروں میں جکڑا رہتا ہے۔ ان جکڑ بندیوں سے نجات پانا اور حقیقت کو قبول کرنا بڑی جرأت و جوا نمردی کا کام ہے۔ اہل کتاب کو دعوت دی جا رہی ہے کہ تمہیں سب لوگوں سے پہلے قرآن مجید پر ایمان لانا چاہیے کیونکہ قرآن کوئی نیا دین پیش نہیں کرتا یہ تو تمہاری بنیادی تعلیمات کی تائید کرتا ہے۔ لہٰذا رکاوٹ بننے کی بجائے ہر اول دستے کا کردار ادا کرتے ہوئے آگے بڑھ کر قرآن کا پیغام سینے سے لگاؤ اور پرچم اسلام کو تھام لو۔ تمہیں وہ سب کچھ عزت کے ساتھ مل جائے گا جس کے چھن جانے کا تمہیں خوف ہے۔ لہٰذا دونوں آیات کے آخر میں تلقین کی گئی ہے کہ مفادات کے چھن جانے کا ڈر، لوگوں کا خوف اور مستقبل کے خدشات سے ڈرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ سے ڈرو کیونکہ دنیا کے مفادات وتحفظات اللہ تعالیٰ کی پکڑ کے مقابلے میں نہایت ہی معمولی چیزہیں۔ ” اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی آیات کو تھوڑے داموں میں فروخت نہ کرو اور اگر منہ مانگے دام ملیں تو بیچ دو بلکہ مقصد یہ ہے کہ کسی قیمت پر حق کو نہ بیچو۔ کیونکہ ساری دنیا کے خزانے بھی اس کے مقابلے میں حقیر ترین معاوضہ ہیں۔“ [ ضیاء القرآن] بنی اسرائیل کو یہ کہہ کر سمجھایا جا رہا ہے کہ تمہیں میرے سوا کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں اور تمہیں اس لیے بھی خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ قرآن تمہاری بنیادی اور صحیح باتوں کی تصدیق کرتا ہے اور اسے میں نے ہی اپنے بندے محمد عربی {ﷺ}پر نازل کیا ہے لہٰذا تمہارے لیے اس سے انکار کرنے کا کوئی علمی واخلاقی جواز نہیں بنتا۔ اس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی بجائے آگے بڑھ کر اسے قبول کرو دنیا کے معمولی مفاد اور عارضی وقار کی خاطر میری آیات کے ساتھ سودے بازی نہ کرو کیونکہ میرے ارشادات کے مقابلے میں دنیا کی حیثیت ذرہ کے برابر بھی نہیں ہے۔ اس حقیقت کو نبی محترم {ﷺ}نے ایک موقعہ پریوں بیان فرمایا ہے : (عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ {رض}أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ {ﷺ}مَرَّ بالسُّوْقِ دَاخِلًا مِّنْ بَعْضِ الْعَالِیَۃِ وَالنَّاسُ کَنَفَتُہٗ فَمَرَّ بِجَدْیٍ أَسَکَّ مَیِّتٍ فَتَنَاوَلَہٗ فَأَخَذَ بِأُذُنِہٖ ثُمَّ قَالَ أَیُّکُمْ یُحِبُّ أَنَّ ھٰذَا لَہٗ بِدِرْھَمٍ فَقَالُوْا مَانُحِبُّ أَنَّہٗ لَنَا بِشَیْءٍ وَمَا نَصْنَعُ بِہٖ قَالَ أَتُحِبُّوْنَ أَنَّہٗ لَکُمْ قَالُوْا وَاللّٰہِ لَوْکَانَ حَیًّاکَانَ عَیْبًا فِیْہِ لِأَنَّہٗ أَسَکَّ فَکَیْفَ وَھُوَ مَیِّتٌ فَقَالَ فَوَاللّٰہِ لَلدُّنْیَا أَھْوَنُ عَلَی اللّٰہِ مِنْ ھٰذَا عَلَیْکُمْ) (رواہ مسلم : کتاب الزھد والرقائق، باب ) ” حضرت جابر بن عبداللہ {رض}بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ {ﷺ}بازار کی ایک جانب سے داخل ہوئے آپ کے ساتھ لوگ بھی تھے آپ ایک مردہ بکری کے بچے کے پاس سے گزرے آپ نے اس کے ایک کان کو پکڑ کر پوچھا کون اسے ایک درہم کے بدلے لینا پسند کرے گا؟ صحابہ کرام {رض}نے کہا : ہم تو اسے کسی چیز کے بدلے بھی لینا نہیں چاہتے اور ہم اس کا کیا کریں گے؟ آپ نے فرمایا : کیا تم اسے پسند کرتے ہو کہ یہ بکری کا بچہ تمہارا ہوتا؟ صحابہ کرام {رض}نے کہا : اللہ کی قسم ! اگر یہ زندہ بھی ہوتا تو کان چھوٹے ہونے کی وجہ سے اسے قبول نہ کیا جاتا۔ اب یہ مرا ہوا ہے تو ہم کیسے اسے پسند کریں گے۔ آپ نے فرمایا : جیسے تمہارے نزدیک یہ بکری کا مردہ بچہ بڑا ہی حقیر ہے۔ اللہ کی قسم! دنیا اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ حقیر اور ذلیل ہے۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ {رض}عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ {ﷺ}قَالَ إِنَّہٗ لَیَأْتِی الرَّجُلُ الْعَظِیْمُ السَّمِیْنُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ لَایَزِنُ عِنْدَ اللّٰہِ جَنَاحَ بَعُوْضَۃٍ وَقَالَ اقْرَءُ وْا ﴿فَلَا نُقِیْمُ لَھُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَزْنًا﴾) (رواہ البخاری : کتاب تفسیر القرآن، باب أولئک الذین کفروا بآیات ربھم ولقاۂ) ” حضرت ابوہریرہ {رض}رسول اللہ {ﷺ}سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا : یقینًا روز قیامت ایک بڑا اور موٹا آدمی لایا جائے گا اللہ کے ہاں اس کا مچھر کے پر کے برا بر بھی وزن نہ ہوگا اور فرمایا : یہ آیت پڑھو ( قیامت کے دن ہم ان کافروں کے لیے ترازوقائم نہیں کریں گے)۔“ پادریوں کی دنیا پرستی : جس تورات و انجیل کی قرآن نے تصدیق کی وہ وہی تھیں جو موسیٰ و عیسیٰ {علیہ السلام}پر نازل ہوئیں۔ مگر نزول قرآن تک ان کتابوں کے کچھ حصے آمیزش اور تحریف و تناقص کا شکار ہوچکے تھے جبکہ بعض حصے بالکل ناپید ہوگئے تھے۔ لہٰذا قرآن نے جہاں ان کتابوں کی مجمل تصدیق کی‘ وہاں یہ بھی بتایا کہ وہ تحریف اور تبدل کا شکار ہوچکی ہیں۔ گویا قرآن کے اپنے الفاظ میں اگر وہ ان کتابوں کا ” مصدق“ ہے تو وہ ان کا ” مہیمن“ بھی ہے۔ یعنی ان کی اصلی تعلیم کا محافظ و نگران اور اسے درست طور پر پیش کرنے والا ﴿وَمُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْکِتَابِ وَمُہَیْمِنًا عَلَیْہِ﴾ ” قرآن کی عظمت یہ ہے کہ اس نے ان حقائق کا اعلان اس وقت کیا جب یہودی اور عیسائی انہیں کسی قیمت پر ماننے کو تیار نہ تھے۔“ پاپاؤں اور کارڈینلوں کی ہوس زر‘ دنیا طلبی اور عیش پرستیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے تاریخ پاپائیت کا مستند مورخ کریٹن پوپ بونی فیس نہم کے بارے میں لکھتا ہے : His ends were purely temporal and had no care for the higher intrests of the Church. (M.Creighton: History of the Papacy, vol. 1, p. 182,183) ” اس کے مقاصد سراسر دنیاوی تھے اور اسے کلیسا کے اعلیٰ مفادات کی کوئی پرواہ نہ تھی۔“ حتیٰ کہ جب اس کے آخری وقت (last hour) پوچھا گیا کہ وہ کیسا ہے تو اس نے جواب دیا : If I had more money I should be wellenough. (M.Crieghton: History of the Papacy, vol. 1, p. 182,183) ” اگر مجھے مزید دولت مل جائے تو میں (اب بھی) ٹھیک ٹھاک ہوسکتا ہوں۔“ صلیبی جنگوں کا ایک اہم محرک بھی جلب زر اور حصول جاہ تھا۔ پوپ اربن دوم (1088) ء نے پہلی صلیبی جنگ پر ابھارتے ہوئے مسیحی شہزادوں اور بہادروں کو کہا تھا : The wealth of our enemies will be yours and you will despoil them of their treasures. ” ہمارے دشمنوں کی دولت تمہاری ہوجائے گی‘ اور تم انہیں ان کے خزانوں سے محروم کر دو گے۔“ [ عیسائیت تجزیہ ومطالعہ از پروفیسر ساجد میر ] مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو چھوڑ کر دنیا کمانا اس کی آیات کو معمولی قیمت پر فروخت کرنے کے مترادف ہے۔ 2۔ اللہ کی کتابوں پر پورا یقین رکھنا چاہیے۔ 3۔ اللہ سے ہی ڈرتے رہنا چاہیے۔