وَأَنَّهُ أَهْلَكَ عَادًا الْأُولَىٰ
اور یہ کہ اسی نے عاد اول (٢٥) کو ہلاک کردیا تھا
فہم القرآن: (آیت 50 سے 55) ربط کلام : ” اَلشِّعْریٰ“ اور علم نجوم پریقین رکھنے والوں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ ستاروں کی گردش کی وجہ سے کائنات میں تبدیلیاں ناگزیر ہوجاتی ہے اور اسی وجہ سے ہلاکتیں رونما ہوتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سورج، چاند اور ستاروں کو ایک محدود حد تک موسم اور فضا میں تبدیلی لانے کا ذریعہ بنایا ہے لیکن اس کا یہ معنٰی نہیں کہ سورج، چاند اور ستارے ازخود اپنے وجود میں یہ طاقت رکھتے ہیں۔ مسلمان کا یہ عقیدہ ہے اور ہونا چاہیے کہ ہر چیز میں جو قوت اور تاثیر ہے وہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہے۔ اگر ” اللہ“ اس قوت کو ضبط کرلے تو اس چیز میں یہ طاقت نہیں کہ وہ اثر انداز ہو سکے۔ جس کی واضح مثال ابراہیم (علیہ السلام) کے حوالے سے قرآن مجید میں موجود ہے کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) کو بھڑکتی ہوئی آگ میں پھینکا گیا تو اللہ تعالیٰ نے آگ کو حکم دیا کہ وہ ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے ٹھنڈی ہوجائے۔ آگ بظاہر اسی طرح بھڑکتی رہی لیکن اس کی تاثیر ختم کردی گئی۔ ابراہیم (علیہ السلام) باسلامت باہر تشریف لے آئے۔ لہٰذا یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ اصل قوت ” اللہ“ کے اختیار میں ہے۔ ” اَلشِّعْریٰ“ کے ذکر کے بعد قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود اور قوم لوط کی ہلاکت کے ذکر کو اللہ تعالیٰ نے بطور نعمت بیان فرمایا ہے۔ مذکورہ بالا اقوام کی ہلاکت کو اس لیے نعمت کے طور پر ذکر کیا ہے کیونکہ لوگوں نے ظالموں سے نجات پائی اور مظلوموں کو پھلنے پھولنے کا موقع نصیب ہوا۔ ” تَتَمَاریٰ“ کا معنٰی ہے آپس میں جھگڑنا، آپس میں اختلاف کرنا شک کرنا وغیرہ۔ اس لیے فرمایا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی کس کس نعمت کے بارے میں تکرار یا شک کرو گے۔ قوم عاد کو آندھی نے گھیر لیا، قوم ثمود کو دھماکے نے آلیا، قوم نوح پر سیلاب عذاب آیا اور قوم لوط کو پتھروں کی بارش کے ساتھ ملیا میٹ کردیا گیا۔ قوم لوط کے بارے میں یہاں صرف اتناہی فرمایا ہے کہ الٹ جانے والی بستی پر چھایا جو چھایا۔ قوم نوح، عاد، ثمود اور لوط کی تفصیل جاننے کے لیے سورۃ الذاریات کی آیت 41تا 46کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں ! عاد اولیٰ سے مراد قدیم قوم عاد ہے جس طرف ہود علیہ السلام بھیجے گئے تھے۔ یہ قوم جب حضرت ہود (علیہ السلام) کو جھٹلانے کی پاداش میں عذاب میں مبتلا ہوئی تو صرف وہ لوگ باقی بچے جو ان پر ایمان لائے تھے۔ ان کی نسل کو تاریخ میں عادِ اُخریٰ یا عاد ثانیہ بھی کہتے ہیں۔