سورة النجم - آیت 39

وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور یہ کہ انسان کو صرف اس کے اپنے ہی عمل کا بدلہ ملے گا

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 39 سے 44) ربط کلام : لوگ جس قیامت کا انکار کرتے ہیں اس دن کوئی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ہر انسان اپنے کیے کا صلہ پائے گا۔ صُحُفِ ابراہیم، صُحُفِ موسیٰ اور قرآن مجید کی یہی تعلیم ہے کہ ہر انسان نے اپنا اپنا بوجھ خود اٹھانا ہے کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ اس لیے ہر انسان کے لیے وہی کچھ ہے جو اس نے دنیا میں کمایا ہوگا اور ہر کوئی عنقریب اپنا کیا ہوا دیکھ لے گا اور ہر کسی کو اس کے کیے کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ سب کا انجام اس کے رب کے پاس ہے جس رب کے پاس انسان کا انجام ہے وہی انسان کو ہنساتا اور رولاتا ہے اور وہی انسان کو مارتا اور زندہ کرتا ہے۔ ان آیات میں تین مضامین کا اختصار پیش کیا گیا ہے۔ 1۔ ہر انسان وہی کچھ پائے گا جو دنیا میں کمائے گا اور اس کی کوشش کا پورا پورا جائزہ لیا جائے گا اور پھر اس کو برائی کی سزا اور نیکی کی جزا دی جائے گی۔ جسے قرآن مجید نے یوں بیان فرمایا ہے۔ ” جس نے ذرہ برابر نیکی کی وہ اس کو دیکھ لے گا۔ اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی وہ بھی اس کو دیکھ لے گا۔“ (الزلزال : 7، 8) 2۔ قرآن مجید نے انسان کو یہ حقیقت بار باربتلائی اور سمجھائی ہے کہ اے انسان ! بالآخر تو نے اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے کیونکہ وہی موت وحیات کا مالک ہے اور اسی کے اختیار میں انسان کو ہنسانا اور رلانا ہے۔ قیامت کا اشارہ فرما کر یہ بات واضح فرمائی ہے کہ کچھ لوگ قیامت کے دن اپنے اعمال پر خوش ہو کر مسکرائیں گے اور کچھ لوگ اپنا اعمال نامہ دیکھ کر زارو قطار روئیں گے۔ (الانشقاق : 9، 11) (دنیا میں بھی ” اللہ“ ہی انسان کو ہنساتا اور رولاتا ہے۔) ” پھر جس کے پلڑے باری ہوں گے وہ عیش کی زندگی میں ہوگا۔ اور جس کے پلڑے ہلکے ہوں گے۔ اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگی۔“ (القارعہ : 6تا9) ” اس دن کچھ چہرے دھمک رہے ہوں گے، ہشاش بشاش اور خوش ہوں گے اور کچھ چہروں پر اس دن خاک پڑی اور سیاہی چھائی ہوئی ہوگی۔ یہ کافر اور فاجر لوگ ہوں گے۔“ (عبس : 38تا42) 3۔ موت اور زندگی اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ انسان کی موت اور زندگی کا فیصلہ رِ حم مادر میں ہی کردیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی موت کا وقت اور مقام مقرر کردیا ہے۔ اس کے سوا کوئی ایسی ہستی نہیں جو انسان کی زندگی میں ایک لمحہ بھی تقدیم و تاخیر کرسکے۔ ” ہر امت کے لیے ایک وقت ہے، جب اس کا وقت آجاتا ہے تو وہ نہ ایک گھڑی پیچھے رہتے ہیں اور نہ آگے بڑھ سکتے ہیں۔“ (یونس :49) ” قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے، وہی بارش برساتا ہے وہی جانتا ہے کہ ماؤں کے پیٹوں میں کیا پرورش پا رہا ہے۔ کوئی نفس نہیں جانتا کہ کل کیا کرنے والا ہے۔ اور نہ کسی شخص کو یہ خبر ہے کہ اس کو موت کس سر زمین میں آئے گی۔ اللہ سب کچھ جاننے والا اور ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے۔“ (لقمان :34) مسائل: 1۔ انسان وہی کچھ پائے گا جو دنیا میں کمائے گا۔ 2۔ ہر انسان کے اعمال کا پوری طرح جائزہ لیا جائے گا۔ 3۔ ہر انسان کو اس کے اعمال کا پورا پور ابدلہ دیا جائے گا۔ 4۔” اللہ“ ہی انسان کو ہنسانے اور رلانے والا ہے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ ہی موت و حیات کا اختیار رکھنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن: تمام اختیارات کا مالک ” اللہ“ ہے : 1۔ اللہ تعالیٰ نے یوسف (علیہ السلام) کو ملک میں بااختیار بنایا۔ (یوسف :56) 2۔ ” اللہ“ بادشاہوں کا بادشاہ ہے جسے چاہے حکومت عنایت کرتا ہے اور جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے۔ (آل عمران :26) 3۔ بابرکت ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں زمین و آسمان کی بادشاہت ہے۔ وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ (الملک :1) 4۔ زمین و آسمان کی بادشاہت اللہ کے لیے ہے۔ (الجاثیہ :27) 5۔ ہر چیز اللہ سبحانہ کے ہاتھ میں ہے۔ ( یٰسٓ:83) 6۔ ہر قسم کی خیر ” اللہ“ کے ہاتھ میں ہے۔ ( آل عمران :73)