سورة الطور - آیت 44

وَإِن يَرَوْا كِسْفًا مِّنَ السَّمَاءِ سَاقِطًا يَقُولُوا سَحَابٌ مَّرْكُومٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور کفار اگر آسمان کا ایک ٹکڑا (٢٥) بھی گرتا ہوا دیکھیں گے تو کہیں گے کہ یہ تہ بہ تہ جما ہوا ایک بادل ہے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 44 سے 47) ربط کلام : مشرکین کی ہٹ دھرمی کی انتہا۔ اللہ تعالیٰ نے واضح دلائل اور سخت ترین تنبیہات کے ذریعے اہل مکہ کو سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ رسول (ﷺ) پر ایمان لائیں، آخرت پر یقین رکھیں اور صرف ایک اللہ کی عبادت کریں۔ لیکن مشرک اس قدر ہٹ دھرم ہوتا ہے کہ وہ ان باتوں کو کسی صورت بھی ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ یہی حالت اہل مکہ کی تھی ان حالات میں یہ ارشاد ہوا کہ ان لوگوں پر اگر آسمان کا کوئی حصہ گرا دیا جائے تو اسے نیچے آتے دیکھ کر کہیں گے کہ یہ تو گھنے بادلوں کاٹکڑا ہے۔ لہٰذا ان کو انہی کے حال پر چھوڑ دیا جائے یہاں تک کہ کہ وہ دن آپہنچے جس دن یہ بے ہوش کردیئے جائیں گے۔ اس دن نہ ان کا مکرو فریب چلے گا اور نہ ہی ان کی کوئی مدد کرنے والا ہوگا۔ ظالموں کے لیے دنیا میں بھی عذاب ہے لیکن ان کی اکثریت اس حقیقت کو جاننے اور ماننے کے لیے تیار نہیں۔ اس خطاب میں کفار کو تنبیہ کرنے کے ساتھ آپ (ﷺ) کے ان ساتھیوں کو بھی تسلی دی گئی ہے جن کا خیال تھا کہ اگر کفار کو ان کے منہ مانگے معجزات دکھادیئے جائیں تو شاید وہ ایمان لے آئیں۔ ان کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے بتلایا گیا ہے کہ معجزات تو درکنار ان پر آسمان کا ٹکڑا بھی گرا دیا جائے تو پھر بھی یہ لوگ اس کی تاویلات کریں گے مگر ایمان نہیں لائیں گے۔ ہاں یہ قیامت کے دن ہر بات تسلیم کریں گے لیکن اس وقت تسلیم کرنے کا انہیں کچھ فائدہ نہیں ہوگا اور نہ ہی یہ ایک دوسرے کی مدد کرسکیں گے۔ ان آیات کی تاثیر : جبیر بن مطعم (رض) آپ (ﷺ) کی خدمت میں بدر کے قیدیوں کی سفارش کرنے کے لیے مدینہ گئے۔ ان کا بیان ہے کہ میں نے مسجد میں آپ کو مغرب کی نماز کے وقت سورۃ طور کی ان آیات کی تلاوت کرتے ہوئے سنا تو میرے دل کی حالت یہ ہوگئی۔ ” حضرت جبیر بن مطعم (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو مغرب کی نماز میں سورۃ طور پڑھتے ہوئے سنا جب آپ ان آیات پر پہنچے ” کیا یہ کسی خالق کے بغیر پیدا ہوئے ہیں؟ یا یہ خود اپنے آپ کے خالق ہیں؟ یا زمین اور آسمانوں کو انہوں نے پیدا کیا ہے ؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ یقین نہیں رکھتے۔ کیا تیرے رب کے خزانے ان کے قبضے میں ہیں؟ یا ان پر ان کا حکم چلتا ہے؟“” کَادَ قَلْبِی أَنْ یَطِیرَ“ قریب تھا کہ میرا دل پھٹ جاتا۔“ ( رواہ البخاری : باب ﴿وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوب﴾) مسائل: 1۔ ہٹ دھرم لوگ بڑی سے بڑی سزا پاکر بھی ایمان نہیں لایا کرتے۔ 2۔ قیامت کے دن ظالموں کا کوئی مکرو فریب نہیں چلے گا اور نہ ہی ان کی کوئی مدد کرنے والا ہوگا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی ظالموں کو کئی قسم کی سزائیں دیتا ہے اس کے باوجود وہ سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ تفسیر بالقرآن: ہٹ دھرم لوگوں کاروّیہ اور کردار : 1۔ کفار کہتے تھے کہ تم ہمارے جیسے بشر ہو تم چاہتے ہو کہ ہم اپنے آباء واجداد کے معبودوں کو چھوڑ دیں۔ (ابراہیم :10) 2۔ کفار نے انبیاء سے کہا کہ ہم تمہیں اپنی زمین سے نکال دیں گے۔ (ابراہیم :13) 3۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کو قوم کے سرداروں نے کہا تو ہمارے جیسا ہی ایک آدمی ہے اور تیری پیروی کرنے والے بھی ادنیٰ لوگ ہیں۔ (ھود :27) 4۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون نے کہا کیا تم اپنے جادو سے ہمیں ہماری زمین سے نکالنا چاہتے ہو۔ (طٰہٰ:57) 5۔ موسیٰ (علیہ السلام) پر آل فرعون نے منحوس ہونے کا الزام لگایا۔ (الاعراف :131) مزید ملاحظہ فرمائیں۔ (الحجر : 14، 15) (سباء :43) (الفرقان :8) (النساء :156) (الاعراف :109) (یونس :76) (یونس :2) (ص :4)