َالطُّورِ
طور (پہاڑ) کی قسم (١)
فہم القرآن: (آیت1سے6) ربط سورت : سورۃ الذّاریات کا اختتام اس فرمان پر ہوا کہ جس دن کا کفار سے وعدہ کیا جاتا ہے اس دن ان کے لیے ہلاکت اور بربادی ہوگی۔ سورۃ الطور کا آغاز پانچ قسمیں اٹھانے کے بعد اس بات سے ہوا ہے کہ جو دن کفار کے لیے ہلاکت کا باعث ہوگا اس کی ہلاکت اور عذاب کو کفار بھی ٹال نہیں سکتے۔ قسم ہے طور کی اور قسم ہے کھلے اوراق میں لکھی ہوئی کتاب کی قسم ہے آباد گھر کی، قسم ہے بلندو بالا چھت کی، قسم ہے بھڑکائے جانے والے سمندر کی۔ 1۔ الطور سے مراد وہ پہاڑ ہے بالخصوص اس کا وہ حصہ جہاں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنے رب سے ہم کلام ہوئے تھے۔ طور کو طور سیناء اور طور سینین بھی کہا گیا ہے، طور سیناء اور سینین دونوں ایک ہی پہاڑ کے نام ہیں۔ اس کی سطح سمندر سے بلندی 7260فٹ ہے اور مدین سے مصر یا مصر سے مدین جاتے ہوئے راستے میں پڑتا ہے۔ اسی مقام پر موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی کا شرف حاصل ہوا۔ اسی پہاڑ کی ایک چوٹی کا نام طور ہے اور اس پہاڑ کے دامن میں واقع وادی کا نام طویٰ ہے جسے قرآن میں وادی مقدس اور ” بقعۃ المبارکہ“ بھی کہا گیا ہے۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) مدین سے واپس آئے اور جب بنی اسرائیل کو مصر سے نکال کر لائے تو اسی راستے سے گزرے تھے۔ 2۔ کشادہ اوراق میں لکھی ہوئی کتاب سے مراد کچھ اہل علم نے تورات لی ہے کیونکہ تورات آسمان سے کھلی تختیوں کی صورت میں نازل ہوئی تھی اور اس میں اللہ تعالیٰ کے احکام موٹے، موٹے حروف میں لکھے ہوئے تھے۔ کیونکہ طور پہاڑ کی قسم کے بعد ” کِتَابٍ مَّسْطُوْرٍ“ کی قسم اٹھائی گئی ہے اس لیے بعض اہل علم کا خیال ہے کہ اس سے مراد تورات ہے۔ باقی اہل علم نے کشادہ اوراق میں لکھی ہوئی کتاب سے مراد لوح محفوظ لیا ہے۔ رق چمڑے کی ایسی جھلی کو بھی کہا جاتا ہے جسے ایک خاص تکنیک کے ساتھ رگڑ رگڑ کر ملائم اور باریک کرلیا گیا ہو۔ پہلے زمانے میں شاہی فرمان اور اہم ترین دستاویزات کو رق پر لکھا جاتا تھا تاکہ اس میں لکھے ہوئے فرمان کا کوئی لفظ مٹنے نہ پائے۔ نبی (ﷺ) نے جو مراسلات روم اور ایران کے فرمانراواؤں کو لکھے تھے وہ ورق پر ہی تحریر کیے گئے تھے۔ 3۔ بیت المعمور : وہ گھر ہے جو ہمیشہ سے آباد چلاآرہا ہے۔ اس گھر کے بارے میں بھی اہل علم کے دو نقطہ نگاہ ہیں۔ ایک جماعت نے اس سے بیت اللہ مراد لیا ہے جس میں ہر وقت رکوع و سجود، قیام اور ذکر و اذکار کرنے والے موجود رہتے ہیں۔ جب سے یہ گھر تعمیر ہوا اس وقت سے لے کر اس کی رونق میں اضافہ ہی ہو رہا ہے اور قیامت تک ہوتا رہے گا۔ دوسری جماعت کا خیال ہے کہ اس گھر سے مراد اسی بیت اللہ کے اوپر ساتویں آسمان پر بیت المعمور ہے جس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے نماز اد کرتے ہیں اور جس نے ایک مرتبہ وہاں نماز پڑھی اسے وہاں قیامت تک نماز پڑھنے کا موقع نہیں ملے گا۔ (رواہ مسلم : باب الإِسْرَاءِ بِرَسُول اللَّہِ (ﷺ) إِلَی السَّمَوَاتِ وَفَرْضِ الصَّلَوَاتِ) نبی (ﷺ) نے معراج کی رات اسی گھر کی دیوار کے ساتھ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو تشریف فرما دیکھا اور ان سے ملاقات کا شرف پایا۔ جس کی تفصیل حدیث کی کتابوں میں موجود ہے۔ 4۔ اونچی چھت سے مراد آسمان ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بغیر ستونوں کے کھڑا کر رکھا ہے۔ اسے اس طرح بنایا اور ٹھہرایا ہے کہ اس میں نہ کوئی دراڑ واقع ہوئی ہے اور نہ ہی اپنی جگہ سے ہلا اور جھکا ہے۔ نامعلوم کتنی مدت سے ایک قبے کی شکل میں جوں کا توں فضا میں ٹھہرا ہوا ہے اللہ تعالیٰ نے اسے لوگوں کے لیے چھت بنایا ہے۔ 5۔ سمندر : سمندر کے بارے میں ارضیات کے ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہ زمین کے مقابلے میں تین گنا بڑا ہے اور پوری زمین کے دریا سمندر میں گرتے ہیں لیکن آج تک سمندر کا پانی اپنے مقام پر ٹھہرا ہوا ہے۔ اگر سمندر کا پانی اپنی حدود سے نکل کھڑا ہو تو دنیا میں کوئی چیز غرق ہونے سے نہ بچ سکے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے مسجور کردیا ہے۔ مسجور کا معنٰی ہے لبا لب بھرا ہونے کے باوجود اپنے مقام پر ٹھہرا ہوا۔ مسجور کا دوسرا معنٰی بھٹکایا ہوا ہے کیونکہ قیامت کے قریب سمندر بھڑک اٹھے گا۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں جن چیزوں کی قسمیں اٹھائی ہیں ان کی حقیقت کما حقُّہ اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ تاہم اہل تفسیر نے اپنے اپنے فہم کے مطابق ان قسموں کی کچھ نہ کچھ حکمت بیان کی ہے جس کے بارے میں قطعی رائے قائم نہیں کی جاسکتی۔ تفسیر بالقرآن: قرآن کی چند قسموں کا تذکرہ : 1۔ آپ کی جان کی قسم! وہ اپنی مدہوشی میں مست ہیں۔ (الحجر :72) 2۔ قسم ہے ان ہواؤں کی! جو بھیجی جاتی ہیں۔ (المرسلات :1) 3۔ قسم ہے جان سختی سے نکالنے والے فرشتوں کی۔ (النازعات :1) 4۔ قسم ہے برجوں والے آسمان کی۔ (البروج :1) 5۔ قسم ہے آسمان کی اور رات کو نمودار ہونے والی چیز کی۔ (الطارق :1) 6۔ قسم ہے فجر کی۔ (الفجر :1) 7۔ میں قسم کھاتا ہوں مکہ شہر کی۔ (البلد :1) 8۔ قسم ہے آفتاب اور اس کی روشنی کی۔ (الشمس :1)