سورة الذاريات - آیت 47

وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور ہم نے آسمان کو اپنے ہاتھوں سے بنایا (١٩) ہے، اور ہم یقیناً بڑی طاقت والے ہیں

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت47سے48) ربط کلام : جس ” اللہ“ نے قوم نوح کو تباہ کیا اس کے جلال اور قدرت کا عالم یہ ہے کہ اس نے اپنے ہاتھوں سے آسمان کو بنایا اور زمین کو فرش کے طور پر بچھایا جس کی قدرت اور جلال کا تقاضا ہے کہ اس کی نافرمانی اور سرکشی کرنے کی بجائے اس کے سامنے جھکا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد عالی ہے کہ ہم نے آسمانوں کو اپنے ہاتھوں سے بنایا اور ہم ہی اسے وسعت دینے والے ہیں اور ہم نے زمین کو فرش بنایا اور ہم بہت اچھا بچھانے والے ہیں۔” اَیْدِیَ“ ” ید“ کی جمع ہے جس کے بارے میں اہل علم کا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ جب اپنے بارے میں ید کا لفظ بولتا ہے تو اس کا مطلب اس کا ہاتھ ہوتا ہے جس کے بارے میں ہمیں قیاس آرائی اور کوئی تاویل کرنے کی اجازت نہیں۔ جب اللہ تعالیٰ اپنے لیے ” ایدی“ کا لفظ استعمال فرماتا ہے تو اس کا معنٰی قوت اور طاقت ہوتا ہے۔ یہاں ” ایدی“ کا معنٰی یہ ہوگا کہ ہم نے آسمانوں کو بنایا اور ہمیں اس پر پوری قوت حاصل تھی اور ہے اور ہم اسے وسعت دینے والے ہیں۔ لغت کے لحاظ سے ” لَمُوْسِعُوْنَ“ کا معنٰی وسعت دینا ہے اس لیے اکثر مفسرین کا خیال اور سائنسدانوں کا مشاہدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی کائنات کو وسعت دے رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فضا میں ستارے اور سیارے بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ سائنسدانوں کا یہ بھی مشاہدہ ہے کہ مختلف سیاروں اور ستاروں کے درمیان دن بدن فاصلہ بڑھ رہا ہے۔ آسمان اور فضا کی کیفیت صحیح معنوں میں اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ لیکن جہاں تک عام آدمی کی سمجھ میں آنے والی بات ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دن بدن نہ صرف انسانوں کی تعداد میں اضافہ کررہا ہے بلکہ ان کے وسائل: میں بھی اضافہ کیا جارہا ہے۔ غور فرمائیں ! کہ آج سے سو سال پہلے کا انسان موجودہ وسائل: بالخصوص ذرائع مواصلات کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ نہ معلوم آنے والے وقت میں انسان کو کیا کیا نعمتیں میسر ہوں گی۔ خوردونوش کی اشیاء کا تجزیہ فرمائیں کہ آج سے پچاس سال پہلے گندم کی فی ایکڑ پیداوار پندرہ بیس من سے زیادہ نہیں تھی اور آج درمیانے درجے کے کھیت سے پچاس ساٹھ مَن گندم حاصل کی جارہی ہے۔ اسی طرح دوسری اشیائے خوردنی کا حال ہے کہ ان کی پیدوار میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے، گویا کہ جس طرح کھانے والے بڑھ رہے ہیں اسی قدر ان کے دسترخوان کو وسعت دی جا رہی ہے۔ قرآن مجید میں زمین و آسمانوں کی پیدائش کے بارے میں کئی مراحل کا تذ کرہ ہوا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے۔ ” پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو اس وقت دھواں تھا، اس نے آسمان اور زمین سے فرمایا چاہو یا نہ چاہو ہر حال میں وجود میں آجاؤ، دونوں نے کہا ہم فرمانبردار ہو کر حاضر ہوگئے۔“ (حٰمٗ السجدۃ:11) ” جس نے اوپر نیچے سات آسمان بنائے، تم رحمٰن کی تخلیق میں کسی قسم کی بے ربطی نہیں پاؤ گے۔ پھر پلٹ کر دیکھو کیا تمہیں کہیں خلل نظر آتا ہے؟ (الملک :3) ” یقیناً ہم نے آسمان میں برج بنائے اور اسے دیکھنے والوں کے لیے خوبصورت بنایا ہے۔“ (الحجر :16) ” جس نے تمہارے لیے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی اتار کر اس سے تمہارے لیے پھل پیدا کیے جو تمہارا رزق ہے۔ لہٰذا حقیقت جاننے کے باوجود اللہ کے ساتھ شریک نہ بناؤ۔“ (البقرۃ:22) ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے زمین کو تخلیق فرمایا تو وہ ہلنا شروع ہوگئی تو اللہ نے پہاڑوں کو پیدا کر کے اس پر گاڑ دیا تو وہ ٹھہر گئی فرشتوں نے پہاڑ کی تخلیق پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا اے پروردگار کیا تو نے پہاڑوں سے بڑھ کے کوئی سخت چیز پیدا کی ہے ؟ اللہ نے فرمایا ہاں ! لوہا، فرشتوں نے عرض کی کیا لوہے سے بڑھ کر کوئی سخت چیز تخلیق کی گئی ہے ؟ اللہ نے فرمایا آگ۔ فرشتوں نے دریافت کیا، کیا آگ سے بھی سخت چیز آپ نے تخلیق فرمائی ہے ؟ اللہ نے فرمایا پانی اس سے بھی سخت تر ہے۔ انہوں نے عرض کی کیا پانی سے بڑھ کر بھی اے اللہ تو نے کسی چیز کو تخلیق کیا ہے ؟ اللہ نے فرمایا ہوا، فرشتوں نے سوال کیا اے پروردگار کیا تو نے ہوا سے بھی بڑھ کر کوئی سخت چیز پیدا کی ہے ؟ اللہ نے فرمایا ابن آدم کا اپنے دائیں ہاتھ سے صدقہ کرنا ہے جس کا بائیں ہاتھ کو پتہ نہ چلے۔“ (رواہ احمد : مسند انس بن مالک، وقال الترمذی ھذا حدیث غریب) مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان کو اپنی قوت کے ساتھ بنایا اور فضا میں ٹھہرایا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کو فرش بنایا اور اسے نہایت ہی اچھے انداز میں بچھایا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ آفاق اور اپنی مخلوق میں اضافہ کررہا ہے۔ تفسیر بالقرآن: زمین و آسمان کا تذکرہ : 1۔ اللہ نے آسمان و زمین کو برحق پیدا کیا ہے اللہ شرک سے بالا تر ہے۔ (النحل :3) (البقرۃ :22) (البقرۃ :116) 2۔ زمین و آسمان پہلے باہم جڑے ہوئے تھے۔ پھر اللہ نے ان کو ایک دوسرے سے الگ کیا۔ (الانبیاء :30) 3۔ اللہ نے دو دن میں آسمانوں کو پیدا کیا۔ (حٰم السجدۃ:12) 4۔ اللہ نے آسمان و زمین چھ دن میں بنائے۔ (الاعراف :54)