بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
میں شروع کرتاہوں اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان، بے حد رحم کرنے والا ہے
بسم اللہ الرحمن الرحیم سورۃ الذاریات کا تعارف : یہ سورت اپنے نام سے ہی شروع ہوتی ہے اس کے تین رکوع اور ساٹھ (60) آیات ہیں۔ یہ مکہ معظمہ میں نازل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کی ابتدا میں ہواؤں کے متعلق چار قسمیں اٹھا کر ارشاد فرمایا ہے کہ لوگو تمہارے ساتھ جس قیامت کا وعدہ کیا جاتا ہے وہ ہر حال میں سچ ثابت ہوگا پھر آسمان کی قسم اٹھاکر ارشاد فرمایا کہ قیامت کا دن ہر صورت واقع ہو کر رہے گا اس کے باوجود تم اس کے بارے میں مختلف قسم کی باتیں کرتے ہو اس کا وہی انکار کرتا ہے جو حق بات سے پھر جاتا ہے۔ جو لوگ قیامت کے بارے میں غفلت میں پڑے ہوئے ہیں وہ مارے جائیں گے۔ غفلت میں مبتلا ہونے کے باوجود پوچھتے ہیں کہ قیامت کب آئے گی؟ انہیں بتلائیں قیامت اس دن آئے گی جس دن یہ لوگ آگ میں تپائے جائیں گے۔ اس وقت انہیں کہا جائے گا کہ اب ہمیشہ کے لیے اپنی گمراہی کا مزا چکھتے رہو۔ ان کے مقابلے میں جو لوگ قیامت پر یقین رکھتے ہوئے رات کے وقت اپنے رب کے حضور استغفار کرتے رہے اور اپنے مال سے سائل: اور محروم کو ان کا حق دیتے رہے انہیں چشموں والی جنت میں داخل کیا جائے گا وہ اپنے رب سے ہر قسم کی نعمتیں حاصل کرنے والے ہوں گے۔ پھر ارشاد فرمایا کہ لوگو قیامت پر یقین اور رب پر ایمان لانا چاہتے ہو تو اس کے لیے تمہارے نفسوں اور جس زمین پر تم رہتے ہو اس میں بے شمار دلائل موجود ہیں۔ اس کے بعد ارشاد ہوا کہ اے نبی کیا آپ کو ابراہیم کے معزز مہانوں کی بات پہنچی ہے؟ جب وہ اس کے پاس آئے تو اسے سلام کہا ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب میں کہا کہ آپ لوگوں کو بھی سلام ہو اور سوچا کہ ناآشنا لوگ ہیں۔ پھر چپکے سے اپنے گھر والوں کے پاس گئے، اور ایک موٹا تازہ بچھڑا بھون کر مہمانوں کے سامنے پیش کیا۔ فرمایا کہ تم کھاتے نہیں؟ ابراہیم (علیہ السلام) نے ان سے خوف محسوس کیا انہوں (فرشتوں) نے کہا۔ ڈریے نہیں اور انہوں نے اسے ایک صاحب علم بیٹے کی خوشخبری سنائی۔ یہ سن کر اس کی بیوی چیختی ہوئی آگے بڑھی اور اس نے اپنے منہ پر ہاتھ مارا اور کہنے لگی، بوڑھی، بانجھ کو بیٹا ہوگا۔ فرشتوں نے کہا تیرے رب کا یہی فرمان ہے یقیناً وہ بڑا حکمت والاہے اور سب کچھ جانتا ہے۔ اس کے بعد حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم اور فرعون کا انجام ذکر کیا گیا ہے لوط (علیہ السلام) کی قوم اور فرعون نے بھی اپنے انبیاء کو ٹھکرایا اور فرعون نے کہا کہ موسیٰ جادوگر ہے یا مجنوں۔ یہی حال قوم عاد، ثمود اور قوم نوح کا ہوا۔ الذاریات کے آخر میں جنوں اور انسانوں کو متوجہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے تمہیں اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا اور ہم تم سے رزق نہیں مانگتے بلکہ روزی دینے والا تو اللہ ہے جو بڑی قوت والا اور زبردست ہے جو لوگ اللہ کی عبادت اور قیامت کے دن کا انکار کریں گے وہ ظالم ہوں گے اور ظالموں کے لیے بالاخر ہلاکت ہوگی۔