سورة ق - آیت 45

نَّحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُونَ ۖ وَمَا أَنتَ عَلَيْهِم بِجَبَّارٍ ۖ فَذَكِّرْ بِالْقُرْآنِ مَن يَخَافُ وَعِيدِ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اہل کفر جو کچھ کہتے ہیں، ہم اسے خوب جانتے (٣٤) ہیں، اور آپ کا کام انہیں (ایمان لانے پر) مجبور کرنا نہیں ہے، پس آپ قرآن کے ذریعہ اس آدمی کو نصیحت کرتے رہئے جو میری دھمکی سے ڈرتا ہے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: ربط کلام : جس رب کے لیے لوگوں کو زندہ کرنا اور محشرکے دن اکٹھا کرنا مشکل نہیں اس کے لیے لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کرنا بھی مشکل نہیں لیکن وہ اپنی حکمت کے تحت لوگوں کو مہلت دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں سینکڑوں دلائل اور کئی انبیائے کرام (علیہ السلام) کو مشاہدے کروا کر ثابت کیا ہے کہ قیامت کے دن ہر صورت مردوں کو زندہ کیا جائے گا اور قیامت برپا ہو کر رہے گی۔ اس کے باوجود اہل مکہ نہ صرف قیامت کا انکار کرتے تھے بلکہ اس کا مذاق بھی اڑاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر ایک طرف نبی (ﷺ) کو تسلی دی ہے اور دوسری طرف کفار کو تنبیہ کی ہے کہ جو تم ہرزہ سرائی کرتے ہو اس کا ایک ایک لفظ ہمارے علم میں ہے۔ ہم چاہیں توسب کچھ تم سے منوا سکتے ہیں۔ لیکن ہمارا اصول یہ ہے کہ کسی کو جبر کے ذریعے ایمان لانے پر مجبور نہ کیا جائے نہ ہی اس نے اپنے نبی کو جبر کرنے والا بنایا۔ اس لیے نبی (ﷺ) کو ارشاد ہوا کہ آپ قرآن مجید کے ذریعے لوگوں کو نصیحت کریں اور ہمارے عذاب سے ڈرائیں۔ یہاں قرآن مجید کو ذکر قرار دیا گیا ہے ذکر کا ایک معنٰی نصیحت بھی ہے۔ قرآن مجید سے بڑھ کر کوئی نصیحت بہتر اور مؤثر نہیں ہوسکتی۔ اس لیے ہر مبلغ کو اپنے وعظ اور خطاب میں قرآن مجید زیادہ سے زیادہ پڑھنا چاہیے، اور لوگوں کو قصے، کہانیاں، شعر سنانے کی بجائے قرآن کے ذریعے نصیحت کرنی چاہیے۔ (البقرۃ:256) ” دین میں کوئی زبردستی نہیں ہدایت گمراہی سے واضح ہوچکی ہے اس لیے جو شخص باطل معبودوں کا انکار کر کے اور اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ خوب سننے، جاننے والا ہے۔“ (عَنْ أَبِیْ مُوْسٰی (رض) قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () إِذَا بَعَثَ أَحَدًا مِّنْ أَصْحَابِہٖ فِیْ بَعْضِ أَمْرِہٖ قَالَ بَشِّرُوْا وَلَا تُنَفِّرُوْا وَ یَسِّرُوْا وَلَا تُعَسِّرُوْا) (رواہ البخاری : باب مَا کَان النَّبِیُّ () یَتَخَوَّلُہُمْ بالْمَوْعِظَۃِ وَالْعِلْمِ کَیْ لاَ یَنْفِرُوا) ” حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں نبی گرامی (ﷺ) جب اپنے ساتھیوں میں سے کسی کو اپنے کسی کام کیلئے بھیجتے تو فرماتے، لوگوں کو خوش خبری دینا، ان کو متنفر نہ کرنا۔ ان کے ساتھ نرمی کرنا، مشکل میں نہ ڈالنا۔“ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) أَنَّھَا قَالَتْ مَاخُیِّرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () بَیْنَ أَمْرَیْنِ إِلَّا أَخَذَ أَیْسَرَھُمَا مَالَمْ یَکُنْ إِثْمًا فَإِنْ کَانَ إِثْمًا کَانَ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنْہُ وَمَا انْتَقَمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () لِنَفْسِہٖٓ إِلَّا أَنْ تُنْتَھَکَ حُرْمَۃُ اللّٰہِ فَیَنْتَقِمُ لِلّٰہِ بِھَا) (رواہ البخاری : کتاب المناقب، باب صفۃ النبی (ﷺ) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) کو دو کاموں میں اختیار دیا جاتا تو آپ دونوں میں سے آسان کام کو اختیار کرتے بشرطیکہ وہ گناہ کا کام نہ ہوتا۔ اگر کام گناہ کا ہوتا تو آپ سب سے زیادہ اس سے دور رہتے۔ آپ نے اپنی ذات کے لیے کسی سے انتقام نہ لیا البتہ جب اللہ کی حرمتوں کو پامال کیا جاتا تو اللہ کے لیے انتقام لیتے۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کی ہر بات کو جانتا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (ﷺ) کو جبر کرنے والا بنا کر مبعوث نہیں کیا۔ 3۔ لوگوں کو قرآن مجید کے ساتھ نصیحت کرنی چاہیے۔ 4۔ لوگوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرانا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن: قرآن مجید جامع اور مؤثر ترین نصیحت ہے : 1۔ ہم نے قرآن مجید کو کھول کر بیان کیا ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ (بنی اسرئیل :41) 2۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو نصیحت کے لیے نازل فرمایا ہے۔ (صٓ:29) 3۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں مثالیں بیان کرتا ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ (الزمر :27) 4۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے لیے اپنی آیات کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ (البقرۃ:221) اللہ تعالیٰ نے نبی (ﷺ) کو جبر کرنے والا بناکر نہیں بھیجا : 1۔ نبی (ﷺ) مومنوں کے ساتھ شفیق و مہربان ہیں۔ (التوبہ :128) 2۔ ہم نے آپ (ﷺ) کو جہان والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ (الانبیاء :107) 3۔ ہم نے آپ (ﷺ) کو جہان والوں کے لیے بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے۔ (سبا :28) 4۔ آپ (ﷺ) کو کتاب وحکمت کی تعلیم دینے کے لیے بھیجا گیا۔ (الجمعہ :2) (الاحزاب :46) 5۔ رسول اللہ (ﷺ) لوگوں کے بوجھ اتارنے اور غلامی سے چھڑانے کیلئے تشریف لائے۔ (الاعراف :157) 6۔ بنی اکرم (ﷺ) کا مبعوث کرنا اللہ تعالیٰ کا مومنوں پر احسان عظیم ہے۔ (آل عمران :164) (الاحزاب :45)