أَفَلَمْ يَنظُرُوا إِلَى السَّمَاءِ فَوْقَهُمْ كَيْفَ بَنَيْنَاهَا وَزَيَّنَّاهَا وَمَا لَهَا مِن فُرُوجٍ
کیا انہوں نے اپنے اوپر آسمان (٥) کو نہیں دیکھا ہے، ہم نے اسے کس طرح بنایا ہے، اسے ستاروں سے مزین کیا ہے، اور اس میں کوئی شگاف نہیں ہے
فہم القرآن: (آیت6سے8) ربط کلام : قیامت کے دن دوبارہ زندہ ہونے کا انکار کرنے والوں کو زمین و آسمان کی تخلیق پر غور کرنے کا حکم۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی مقامات پر زمین و آسمان پر غور کرنے کی دعوت دی ہے۔ ہر مقام پر چند الفاظ کے تکرار کے سوا نئے الفاظ کے ساتھ نیا استدلال پیش کیا ہے۔ اسی اصول کے تحت قیامت کے دن جی اٹھنے کا انکار کرنے والوں کو توجہ دلائی ہے کہ چند الفاظ کے ذریعے لوگوں کی توجہ ان حقائق کی طرف مبذول کروائی گئی ہے۔ کیا لوگ اپنے اوپر تنے ہوئے آسمان کی طرف غور نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے کس طرح بنایا اور سجایا ہے اور اس میں کسی قسم کا شگاف نہیں پایا جاتا۔ اسی نے زمین کو بچھایا اور اس پر پہاڑ گاڑ دیے پھر زمین سے نباتات کا سلسلہ شروع فرمایا اس میں اس بندے کے لیے اپنے رب کی طرف پلٹنے سے بہت دلائل ہیں جو اس کی طرف رجوع کرنا چاہتا ہے۔ ” جس نے اوپر نیچے سات آسمان بنائے، تم رحمٰن کی تخلیق میں کسی قسم کی بے ربطی نہیں پاؤ گے۔ پھر پلٹ کر دیکھو کیا تمہیں کوئی خلل نظر آتا ہے۔ بار بار نظر دوڑاؤ تمہاری نظر تھک کر پلٹ آئے گی۔ لیکن آسمان میں کوئی شگاف نہیں پاؤ گے۔“ (الملک : 3،4) (النساء :30) اور جو شخص یہ سرکشی اور ظلم کرے گا عنقریب ہم اسے آگ میں داخل کریں گے اور یہ اللہ کے لیے یہ آسان ہے۔“ زمین و آسمانوں کی ابتدا کس طرح ہوئی : سائنس کی تحقیقات نے ثابت کردیا ہے کہ کائنات اپنا ایک آغاز (Beginning) رکھتی ہے۔ اور ایسا کرتے ہوئے اس نے خدا کی صداقت کو ثابت کردیا ہے۔ کیونکہ جو چیز اپنا آغاز رکھتی ہو وہ اپنے آپ شروع نہیں ہو سکتی۔ یقیناً وہ ایک محرک اول، ایک خالق، ایک خدا کی محتاج ہے۔“ (The evidence of God ,p51) چنانچہ کائنات کے وجود میں آنے کا مسلمہ جدید ترین نظریہ یہ ہے کہ ابتداً مادہ مرکوز اور مجتمع (Concertrated and condensed) حالت میں تھا۔ ” کیا کافروں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ ارض و سماوات آپس میں گڈ مڈ تھے پھر ہم نے انھیں الگ الگ کیا اور ہر جاندار چیز کو پانی سے زندگی بخشی کیا پھر بھی یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی خلّاقی پر ایمان نہیں لاتے؟“ (سورۃ الأنبیاء :30) یہ مادہ بالکل توازن کی حالت میں تھا اس میں کسی قسم کی کوئی حرکت نہ تھی پھر اچانک یہ ایک عظیم دھماکہ (Big Bang) (یہ عظیم دھماکہ ایک اندازہ کے مطابق 15 کھرب سال پہلے ہوا) سے پھٹ پڑا اور اس نے ایک عظیم گیسی بادل یا قرآن کے لفظ میں دخان کی صورت اختیار کرلی۔ سائنس کی یہ دریافت قرآنی بیان کی تفسیر معلوم ہوتی ہے۔ یہ گیسی بادل بہت عظیم الجثہ تھا اور آہستہ آہستہ گردش کر رہا تھا۔ یہ عظیم سدیم (Primery Nebula) انجام کار متعدد ٹکڑوں میں بٹ گیا جن کی لمبائی چوڑائی اور مقدار مادہ بہت ہی زیادہ تھا۔ نجمی طبیعات (Astrophysicist) کے ماہرین اس کی مقدار کا اندازہ سورج کے موجودہ مادہ کے ایک ارب سے لگا کر ایک کھرب گنا تک لگاتے ہیں۔ ان اعداد سے ابتدائی گیسی مقدار مادہ (Hydrogen and Helium) کے ان ٹکڑوں کے عظیم جثوں کا کچھ تصور ملتا ہے جن سے بعد میں عمل انجماد (Condensation) کے ذریعے کہکشائیں وجود میں آئیں۔ علمائے فلکیات کے ایک جدید اندازے کے مطابق ہر کہکشاں (Galaxy) میں دو کھرب ستارے ہیں اور اب تک معلوم کائنات میں تقریباً دو کھرب یہ کہکشائیں ہیں۔ جو کہکشاں ہم سے قریب ترین ہے وہاں سے روشنی کو ہم تک پہنچنے میں تقریباً نو لاکھ سال لگ جاتے ہیں۔ یہ کہکشاں مراۃ السلسلہ (Andromida) نامی مجمع النجوم میں واقع ہے۔ لہٰذا روشنی کو ان ستاروں سے جو معلوم سماوی جہاں کے اس سرے پر واقع ہیں ہم تک پہنچنے میں اربوں سال لگ جاتے ہیں۔ کائنات کی پہنائیاں اس قدر وسیع ہیں کہ ان کی پیمائش کے لیے خاص اکائیاں مثلاً نوری سال اور پارسک وغیرہ وضع کی گئیں ہیں۔ نوری سال یا سال نوای اس فاصلہ کو کہتے ہیں جو روشنی ایک سال میں طے کرتی ہے اور یہ تقریباً 58 کھرب ستر ارب میل کے برابر ہوتا ہے اور پارسک 3.26 نوری سال یا ایک نیل 92 کھرب میل کے لگ بھگ ہے۔ فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَĬ تفصیل کے لیے فہم القرآن جلد دوم سورۃ الاعراف آیت 54کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔ آسمان کی طرف توجہ دلانے کے بعد اب ارشاد فرمایا کہ اے لوگو! اب اپنے پاؤں تلے زمین پر غور کرو کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو کس طرح بچھایا اور بنایا ہے۔ ” اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور اس کا عرش پانی پر تھا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے عمل کرتا ہے۔“ (ہود :7) پہاڑوں پر غور کرنے کی دعوت : اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی چیزوں میں سب سے بڑی چار چیزیں ہیں۔ آسمان، زمین، پہاڑ اور سمندرہیں۔ انسان کا اللہ تعالیٰ کی جس مخلوق کے ساتھ واسطہ پڑتا ہے ان میں یہ چار بڑی مخلوقات ہیں۔ پہاڑوں کے بارے بھی قرآن مجید میں کافی تفصیلات بیان ہوئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے زمین پر نباتات کی صورت میں ایسی چیزیں پیدا فرمائی ہیں۔ جو انسان کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سرور ہیں۔ میخوں کی مانند پہاڑ : ارضیات میں ” بل پڑنے“ (Folding) کا مظہر حالیہ دریافت شدہ حقیقت ہے۔ قشر ارض (Crust) میں بل پڑنے کی وجہ سے پہاڑی سلسلے وجود میں آئے ہیں۔ قشر ارض جس پرہم رہتے ہیں، کسی ٹھوس چھلکے کی طرح ہے، جب کہ کرۂ ارض کی اندرونی پرتیں، (Layers) نہایت گرم اور مائع ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زمین کا اندرون کسی بھی قسم کی زندگی کے لیے قطعًا غیر موزوں ہے۔ آج ہمیں یہ بھی معلوم ہوچکا ہے کہ پہاڑوں کی قیام پذیری (Stability) کا تعلق، قشر ارض میں بل پڑنے کے عمل سے بہت گہرا ہے۔ ماہرین ارضیات کا کہنا ہے کہ زمین کارداس (Radius) یعنی نصف قطر تقریباً 035، 6کلومیٹر ہے اور قشر ارض، جس پر ہم رہتے ہیں، اس کے مقابلے میں بہت پتلی ہے، جس کی موٹائی 2 کلومیٹر سے لے کر 35کلومیٹر تک ہے۔ چونکہ قشر ارض بہت پتلی ہے، لہٰذا اس کے تھرتھرانے یا ہلنے کا امکان بھی بہت قوی ہے، اس میں پہاڑ خیمے کی میخوں کا کام کرتے ہیں جو قشرِارض کو تھام لیتی ہیں اور اسے قیام پذیری عطا کرتے ہیں۔ قرآن پاک میں بھی عین یہی کہا گیا ہے : (النباء : 6،7) ” کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے زمین کو فرش بنایا اور پہاڑوں کو میخوں کی طرح گاڑ دیا۔“ یہاں عربی لفظ ” اوتاد“ کا مطلب بھی میخیں ہی نکلتا ہے، ویسی ہی میخیں جیسی کہ خیمے کو باندھے رکھنے کے لیے لگائی جاتی ہیں۔ ارضیاتی تہوں (Folds) یا سلوٹوں کی گہری پوشیدہ بنیادیں بھی یہی ہیں۔ Earth نام کی ایک کتاب ہے جو دنیا بھر کی کئی جامعات میں ارضیات کی بنیادی حوالہ جاتی نصابی کتاب کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کتاب کے مصنفین میں ایک نام ڈاکٹر فرینک پریس کا بھی ہے، جو 12سال تک امریکہ کی اکیڈمی آف سائنسز کے سربراہ رہے ہیں۔ اس کتاب میں وہ پہاڑوں کی وضاحت، کلہاڑی کے پھل جیسی شکل (Wedge Shape) سے کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ پہاڑ بذات خود ایک وسیع تر وجود کا ایک چھوٹا حصہ ہوتا ہے۔ جس کی جڑیں زمین میں بہت گہرائی تک اتری ہوتی ہیں۔ (ملاحظہ ہو :e arth از : پریس اور سلورڈاکٹر فرینک پریس کے مطابق، قشر ارض کی پائیداری اور قیام پذیری میں پہاڑ نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پہاڑوں کے فائدے کی وضاحت کرتے ہوئے، قرآن پاک واضح طور پر یہ فرماتا ہے کہ انہیں اس لیے بنایا گیا ہے تاکہ یہ زمین کو لرز تے رہنے سے بچائیں : ” اور ہم نے زمین میں پہاڑ جما دیے تاکہ وہ انہیں لے کر ڈھلک نہ جائے۔“ (الانبیاء :31) اسی طرح کے ارشادات سورۃ لقمان، آیت : 10اور سورۃ النحل اور آیت 15میں بھی وارد ہوئے ہیں۔ لہٰذا قرآن پاک کے فراہم کردہ بیانات جدید ارضیاتی معلومات سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہیں۔ پہاڑوں کو مضبوطی سے جماد یا گیا ہے : سطح زمین متعدد ٹھوس ٹکڑوں، یعنی ” پلیٹوں“ میں بٹی ہوئی ہے جن کی اوسط موٹائی تقریباً ١٠٠ کلومیٹر ہے۔ یہ پلیٹیں، جزوی طور پر پگھلے ہوئے حصے کے اوپر گویا تیر رہی ہیں، اس حصے کو (Aesthenosphere) کہا جاتا ہے۔ پہاڑ عموماً پلیٹوں کی بیرونی حدود پر پائے جاتے ہیں۔ قشر ارض، سمندروں کے نیچے ٥ کلومیٹر موٹی ہوتی ہے، جب کہ خشکی پر اس کی اوسط موٹائی ٣٥ کلومیٹر تک ہوتی ہے البتہ پہاڑی سلسلوں میں قشر ارض کی موٹائی ٨٠ کلومیٹر تک جا پہنچتی ہے، یہی وہ مضبوط بنیادیں ہیں جن پر پہاڑ کھڑے ہیں۔ پہاڑوں میں برکات : اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کو صرف میخوں کے طور پر ہی نہیں بنایا بلکہ ان میں بے شمار فوائد رکھ دیے ہیں۔ پہاڑوں پر برف جمتی ہے جو اللہ کی طرف سے پانی ذخیرہ کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ پہاڑوں میں چشمے جاری ہوتے ہیں۔ جو صاف، شفاف پانی کا وسیلہ ہیں۔ اکثر دریاؤں کا آغاز پہاڑوں سے ہوتا ہے۔ پہاڑوں میں بے شمار قسم کی معدنیات پائی جاتی ہیں جو زمین کی پیداوار سے ہزاروں گناقیمتی ہیں۔ پہاڑوں میں سونے کے ذخائر اور بے شمار قسم کے قیمتی پتھر بھی پائے جاتے ہیں۔ مسائل: 1۔ انسان کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان کو کس طرح بنایا، سجایا اور اٹھایا ہے۔ 2۔ انسان کو غور کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو کس طرح پھیلایا اور اس پر پہاڑ گاڑ رکھے ہیں۔ 3۔ انسان کو زمین اور پہاڑوں کی نباتات پر غور کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے کس طرح خوشنما بنا دیا ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں میں ہر انسان کے لیے نصیحت اور عبرت ہے بشرطیکہ وہ اس کی طرف رجوع کرنے والا اور نصیحت حاصل کرنے والا ہو۔ تفسیر بالقرآن: کون لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں : 1۔ اللہ تعالیٰ نے آل فرعون کو مختلف عذابوں سے دو چار کیا تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ (الاعراف :130) 2۔ صاحب عقل ودانش ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ (الزمر :9) (الزمر :27) (البقرۃ:221) (ص :29) (الذاریات :49)