قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا ۖ قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَٰكِن قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ ۖ وَإِن تُطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَا يَلِتْكُم مِّنْ أَعْمَالِكُمْ شَيْئًا ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
دیہاتیوں نے کہا، ہم ایمان (١٢) لے آئے، آپ کہہ دیجیے کہ تم ابھی ایمان نہیں لائے، لیکن کہو کہ ہم نے اسلام کو قبول کرلیا ہے، اور ایمان ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے، اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو گے، تو اللہ تمہارے نیک اعمال میں کچھ بھی کمی نہیں کرے گا، بے شک اللہ بڑا معاف کرنے والا، بے حد رحم کرنے والا ہے
فہم القرآن: (آیت14سے15) ربط کلام : اللہ تعالیٰ علیم اور خبیر ہے پچھلی آیات کے حوالے سے وہ جانتا ہے کہ کچھ لوگ صرف زبان سے ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں حالانکہ ایمان ان کے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔ اس آیت میں یہ اشارہ موجود ہے کہ دوسروں کا مذاق اٹھانا اور عیب جوئی کرنا جہالت کا کام ہے ایسے لوگوں کو انتباہ کے طور پر بتلایا گیا ہے۔ نبی معظم (ﷺ) کے دور میں مدینہ کے مضافات میں رہنے والے ایسے لوگ بھی تھے جو آپ کی خدمت میں آکر ایسا انداز اختیار کرتے جس سے صاف معلوم ہوتا کہ یہ لوگ اپنے ایمان لانے کو نبی (ﷺ) اور مسلمانوں پر احسان سمجھتے ہیں۔ اس بنا پر وہ نبی (ﷺ) سے ایسے مطالبات کرتے ہیں جن کا انہیں حق نہیں تھا۔ اس صورتحال میں نبی (ﷺ) کو ارشاد ہوا کہ آپ انہیں فرمائیں کہ تم نے ابھی تک اسلام کا اقرار کیا ہے۔ حقیقت میں ایمان نہیں لائے کیونکہ تمہارے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوا۔ اگر تم رسمی کی بجائے حقیقی ایمان کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے کچھ کم نہیں کرے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ معاف کرنے اور رحم فرمانے والا ہے۔ حقیقت میں مومن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائیں پھر انہیں اپنے ایمان کے بارے میں کوئی شک نہ رہے۔ اس ایمان کا تقاضا ہے کہ وہ اللہ کے راستے میں اپنے مال اور اپنی جان کے ساتھ جہاد کریں۔ یہی لوگ دعویٰ ایمان میں سچے ہیں۔ جہاد کا جامع مفہوم یہ ہے کہ مسلمان ہر محاذ پر اسلام اور مسلمانوں کی سربلندی کے لیے جدوجہد کرتے رہیں۔ اس فرمان میں اللہ تعالیٰ نے رسمی اور حقیقی ایمان کا فرق بیان کیا ہے۔ رسمی اور نسلی ایمان یہ ہے کہ آدمی فائدے کے وقت اسلام پر عمل کرے اور مشکل کے وقت اسلام پر عمل کرنا چھوڑ دے۔ اس طرح کا ایمان انسان میں کوئی تبدیلی واقع نہیں کرتا۔ سچے ایمان اور حقیقی اسلام کا فائدہ یہ ہے کہ انسان اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہوئے کسی پر احسان نہیں جتلاتا۔ وہ مسجد میں خرچ کرتا ہے تو اس کا کسی نمازی اور خطیب پر احسان نہیں ہوتا۔ وہ دینی مدرسہ کے ساتھ تعاون کرتا ہے تو طلبہ اور اس کی انتظامیہ پر احسان نہیں جتلاتا۔ کسی غریب کی مدد کرتا ہے تو اس سے کسی خدمت کی توقع نہیں رکھتا۔ قتال فی سبیل اللہ میں حصہ لیتا ہے تو اس میں اس کا کوئی دنیاوی مفاد نہیں ہوتا۔ اس کی نیت و عمل میں یہ اخلاص اور جذبہ اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ اس کے دل میں ایمان راسخ ہوچکا ہوتا ہے۔ حقیقی ایمان کی یہی نشانی ہے کہ وہ مسلمان کے فکر و عمل میں انقلاب پیدا کرتا ہے جس بنا پر ایماندار شخص اپنے کسی عمل کا کسی پر احسان نہیں جتلاتا۔ اللہ تعالیٰ نہ صرف ایسے لوگوں کے اجر میں کوئی کمی نہیں کرے گا بلکہ اپنی مہربانی سے ان کی بشری کمزوریوں اور غلطیوں کو بھی معاف فرما دے گا۔ کیونکہ وہ معاف کرنے والا اور انتہائی رحیم و شفیق ہے۔ رسمی اور حقیقی ایمان کے درمیان فرق یہ ہے کہ رسمی طور پر ایمان لانے والے رسماً اسلام پر عمل کرتے ہیں اور حقیقی طور پر ایمان لانے والے صرف اپنے رب کی رضا کے لیے عمل کرتے ہیں یہی لوگ اپنے ایمان میں سچے ہیں۔ مومن اور مسلمان میں فرق : (عَنْ عَلِیٍّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) یَأْتِیْ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لَایَبْقٰی مِنَ الْاِسْلَامِ اِلَّاإِسْمُہٗ وَلَا یَبْقٰی مِنَ الْقُرْاٰنِ إِلَّا رَسْمُہٗ مَسَاجِدُھُمْ عَامِرَۃٌ وَھِیَ خَرَابٌ مِنَ الْھُدٰی عُلَمَاءُ ھُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ أَدِیْمِ السَّمَآءِ مِنْ عِنْدِ ھِمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَۃُ وَفِیْھِمْ تَعُوْدُ) (مشکوٰۃ: کتاب العلم، قال یحییٰ بن معین لیس بشی ءٍ، حکمہ ضعیف) ” حضرت علی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (ﷺ) نے فرمایا : لوگوں پر ایک ایسا دور آئے گا کہ اسلام کا صرف نام رہ جائے گا، قرآن کی تلاوت عادت کے طور پر کی جائے گی، ان کی مساجد آباد ہوں گی لیکن ہدایت سے خالی ہوں گی، ان کے علماء آسمان کی چھت تلے شریر ترین لوگ ہوں گے، انہی سے فتنہ ظہور پذیر ہوگا اور انہی کی طرف لوٹ جائے گا۔“ (عَنْ عَائِشَۃَ (رض) قَالَتْ سَمِعْتُ النَّبِیَّ (ﷺ) یَقُولُ فِی بَعْضِ صَلاَتِہِ اللَّہُمَّ حَاسِبْنِی حِسَاباً یَسِیرًا فَلَمَّا انْصَرَفَ قُلْتُ یَا نَبِیَّ اللَّہِ مَا الْحِسَابُ الْیَسِیرُ قَالَ أَنْ یَنْظُرَ فِی کِتَابِہِ فَیَتَجَاوَزَ عَنْہُ إِنَّہُ مَنْ نُوقِشَ الْحِسَابَ یَوْمَئِذٍ یَا عَائِشَۃُ ہَلَکَ وَکُلُّ مَا یُصِیبُ الْمُؤْمِنَ یُکَفِّرُ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ بِہِ عَنْہُ حَتَّی الشَّوْکَۃُ تَشُوکُہُ) (روہ احمد : مسند عائشہ صدیقہ (رض) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں میں نے نبی (ﷺ) کو بعض نمازوں میں یہ دعا مانگتے سنا آپ دعا کرتے۔ اے بار الٰہا! میرا حساب آسان فرماناجب آپ نماز سے فارٖغ ہوئے تو میں نے عرض کی اللہ کے پیغمبر آسان حساب کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ انسان کے نامہ اعمال کی طرف دیکھ کر اسے چھوڑ دیا جائے۔ اس دن جس سے حساب و کتاب میں پوچھ گچھ ہوگئی وہ ہلاک ہوگیا اور ہر تکلیف جو مومن کو پہنچتی ہے اللہ عزوجل اس کے عوض اس کے گناہ مٹا دیتا ہے حتٰی کہ کانٹا چبھنے سے بھی گناہ مٹ جاتے ہیں۔“ مسائل: 1۔ کچھ لوگ بظاہر مسلمان ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں ان کے دلوں میں ایمان نہیں ہوتا۔ 2۔ جو شخص اخلاص کے ساتھ ایمان لائے، اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے اللہ تعالیٰ اس کے اجر میں کوئی کمی نہیں کرے گا۔ 3۔ جو شخص اخلاص کے ساتھ ایمان کے تقاضے پورے کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی بشری کمزوریوں کو معاف کردیتا ہے کیونکہ وہ معاف کرنے اور رحم فرمانے والا ہے۔ 4۔ حقیقی ایمان کا یہ تقاضا ہے کہ ایمان لانے کے بعد آدمی کو اپنے ایمان کے بارے میں کسی قسم کا شک اور تردد نہیں ہونا چاہیے۔ 5۔ حقیقی ایمان رکھنے والے لوگ ” اللہ“ کی راہ میں اپنے مال اور جان کے ساتھ جہاد کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن: حقیقی ایمان کے تقاضے : 1۔ غیب پر ایمان لانا۔ (البقرۃ:1) 2۔ قرآن مجید اور پہلی آسمانی کتابوں پر ایمان لانا۔ (البقرۃ:4) 3۔ اللہ اور کتب سماوی پر ایمان لانا۔ (البقرۃ:136) 4۔ آخرت پر یقین رکھنا۔ (البقرۃ:4) 5۔ انبیاء پر ایمان لانا اور ان میں فرق نہ کرنا۔ (آل عمران :84) 6۔ اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کے درمیان فرق نہ کرنا۔ (النساء :151) 7۔ ایمان کی تفصیل۔ (البقرۃ:285)