يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّن قَوْمٍ عَسَىٰ أَن يَكُونُوا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِّن نِّسَاءٍ عَسَىٰ أَن يَكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ ۖ وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ ۖ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ ۚ وَمَن لَّمْ يَتُبْ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ
اے ایمان والو ! ایک جماعت دوسری جماعت کا مذاق (٩) نہ اڑائے، ممکن ہے کہ جن کا مذاق اڑایا جا رہا ہے، وہ مذاق اڑانے والوں سے بہتر ہوں، اور تم اپنے مسلمان بھائیوں پر طعنہ زنی نہ کرو، اور ایک دوسرے کو برے القاب نہ دو، ایمان لانے کے بعد مسلمان کو برا نام دینا بڑی بری شے ہے، اور جو ایسی بد زبانی و بد اخلاقی سے تائب نہیں ہوں گے، تو وہی لوگ ظالم ہیں
فہم القرآن: ربط کلام : مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اس لیے انہیں آپس کے اختلافات سے بچنا چاہیے یہ تبھی ممکن ہوگا جب مسلمان ایک دوسرے کی عزت کا خیال رکھیں گے اور ایسے الفاظ اور انداز سے بچیں جس سے دوسرے بھائی کی توہین کا پہلو نکلتاہو۔ مومنوں کو اللہ تعالیٰ نے اس بات سے منع کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الحجرات میں مسلمانوں کو تیسری مرتبہ ” اٰمَنُوْا“ کے لفظ سے مخاطب کیا ہے کہ اے ایمان والو! کوئی قوم کسی دوسری قوم سے تمسخر نہ کرے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ اس سے بہتر ہو اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کو مذاق کا نشانہ بنائیں ممکن ہے کہ وہ ان سے بہترہوں اور نہ ایک دوسرے کے عیب نکالا کرو اور نہ ایک دوسرے کے برے نام رکھو۔ ایمان لانے کے بعد دوسروں کے برے نام رکھنا ” اللہ تعالیٰ“ کی نافرمانی کرنا ہے جو اس کام سے باز نہ آئیں وہ لوگ ظالم ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اس خطاب میں مسلمانوں کو سطحی اور گھٹیا اخلاق اور کردار سے بچانے کے لیے تین حکم دیئے ہیں۔ 1۔ کوئی قوم دوسری قوم کو اور عورتیں دوسری عورتوں کو تمسخر کا نشانہ نہ بنائیں۔ کیونکہ ہوسکتا ہے کہ وہ تمسخر کرنے والوں سے بہتر ہوں۔ اس صورت میں مذاق کرنے والی کی نہ صرف اپنی بے عزتی ہوگی بلکہ معاشرے میں اختلاف بھی پیدا ہوگا جس سے بچنا چاہیے۔ ایک دوسرے کا تمسخراڑانا منع ہے : تمسخر کا معنٰی ہے کسی کو حقیر جانتے ہوئے اس کی بے عزتی کرنا، ذلیل کرنا، مذاق اڑانا، توہین کرنا۔ عربوں میں اس بات کا عام رواج تھا کہ ایک قبیلے کا شاعر دوسرے قبیلے کی تضحیک کرتا۔ نہ صرف ان کے سر کردہ لوگوں کی تضحیک کرتا بلکہ ان کی خواتین کو بھی تضحیک کانشانہ بناتا اور یہی عادت خواتین میں پائی جاتی تھی۔ جو قبیلہ دوسرے قبیلے کاسب سے زیادہ تمسخر اڑاتا اسے دوسروں سے برتر سمجھا جاتا تھا۔ تمسخر اڑانے والے شاعر کو خراج تحسین پیش کیا جاتا۔ دوسرے کی عزت و احترام کے ساتھ کھیلنا اور انہیں لوگوں کی نظروں میں حقیر بنانا ان کے نزدیک کوئی عیب نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ نے مومن مردوں اور عورتوں کو یہ کہہ کر منع کیا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ جن کو تم تمسخر کا نشانہ بناتے ہو وہ ایمان، اخلاق اور کردار کے لحاظ سے تم سے بہتر ہوں۔ ” اٰمَنُوْا“ کے لفظ میں مرد اور خواتین دونوں شامل ہیں لیکن اعلیٰ اخلاق کی ترویج اور اس کی اہمیت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے مردوں اور خواتین کو الگ الگ مخاطب کیا اور انہیں اس بری عادت سے منع فرمایا ہے۔ یاد رہے کہ آدمی دوسرے کو اس وقت مذاق کانشانہ بناتا ہے جب اس کے دل سے اس کا احترام اٹھ جاتا ہے جب کسی کا احترام اٹھ جائے تو پھر باہمی اخوت باقی نہیں رہتی۔ جس معاشرے اور قوم میں اخوت اور بھائی چارے کا فقدان ہو اس میں اتحاد باقی نہیں رہ سکتا۔ یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ تمسخر اور خوش طبعی میں بڑا فرق ہے۔ خوش طبعی میں دوسرے کو خوش کرنا مقصود ہوتا ہے لیکن تمسخر میں دوسرے کی تذلیل پائی جاتی ہے۔ بے شک یہ کام زبان سے کیا جائے یا اشارے کنائے سے اس سے ہر صورت بچنا چاہیے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) لَا تَحَاسَدُوا وَلَا تَنَاجَشُوا وَلَا تَبَاغَضُوا وَلَا تَدَابَرُوا وَلَا یَبِعْ بَعْضُکُمْ عَلٰی بَیْعِ بَعْضٍ وَکُونُوا عِبَاد اللّٰہِ إِخْوَانًا الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لَا یَظْلِمُہٗ وَلَا یَخْذُلُہٗ وَلَا یَحْقِرُہٗ التَّقْوٰی ہَاہُنَا وَیُشِیرُ إِلَی صَدْرِہٖ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ۔۔) (رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ، باب تحریم ظلم المسلم) ” حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں رسول مکرم (ﷺ) نے فرمایا با ہم حسد نہ کرو اور ایک دوسرے پر بو لی نہ بڑھاؤ اور بغض نہ رکھو اور قطع تعلقی نہ کرو اور تم میں سے کوئی دوسرے کے سودے پر تجارت نہ کرے اللہ کے بندو بھائی بھائی بن جاؤ۔ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ وہ اپنے بھائی پر ظلم کرتا ہے نہ اسے ذلیل کرتا ہے اور نہ ہی اسے حقیر سمجھتا ہے تقویٰ اس جگہ ہے آپ (ﷺ) نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین مرتبہ فرمایا۔۔“ (وَعَنْ عَبْدِاللّٰہِ ابْنِ عَمْرٍو (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) اِنَّ مِنْ اَحَبِّکُمْ اِلَیَّ اَحْسَنَکُمْ اَخْلَاقًا) (رواہ البخاری : باب مَنَاقِبُ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ) ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی گرامی (ﷺ) نے فرمایا : مجھے وہ شخص زیادہ پسند ہے، جو تم میں بہترین اخلاق والاہے۔“ ” عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا۔ تم میں سے وہ بہتر ہیں، جو اخلاق کے لحاظ سے بہتر ہیں۔“ (رواہ البخاری : باب صفۃ ا لنبی (ﷺ) عیب جوئی سے بچنے کا حکم : دوسرا حکم یہ ہے کہ آپس میں ایک دوسرے کی عیب جوئی نہ کیا کرو۔ آپس کا لفظ استعمال فرما کر یہ سمجھایا کہ ہر ایماندار دوسرے کو اپنا بھائی جانے اور اس کی عزت کو اپنی عزت سمجھے۔ مقصود یہ ہے کہ جس طرح اپنی عزت کا خیال رکھتے ہو اسی طرح اپنے بھائی کی عزت کا خیال رکھو! عیب جوئی کرنے والے کا مقصد ہی دوسرے کے عیب اچھالنا اور اس کو ذلیل کرنا ہوتا ہے۔ چاہے یہ کام عادت کے طور پر کیا جائے یا حسد اور مخالفت کی بنیاد پر دوسرے کی عزت اچھالنے کے سوا اس کام کی کوئی اچھی تعبیر نہیں کی جاسکتی۔ ظاہر ہے جب ایک شخص دوسرے کی عزت اچھالنے کی کوشش کرے گا۔ یا تو وہ اس سے بدلہ لے گا یا پھر اس سے نفرت کا اظہار کرے گا۔ کیونکہ اخوت اور نفرت بیک وقت جمع نہیں ہو سکتے۔ نفرت پیدا کرنے سے اجتناب کرنے کا حکم : نبی (علیہ السلام) نے باہمی نفرت سے بچنے کا اس حد تک خیال فرمایا کہ آپ جہاں بھی اپنے نمائندے بھیجتے۔ انہیں حکم دیتے کہ وعظ و نصیحت میں بھی ایسے الفاظ اور ایسا انداز اختیار نہ کیا جس سے لوگ دین سے نفرت کریں یا ان میں بلاوجہ تفریق پیدا ہوجائے۔ (عَنْ أَبِیْ مُوْسٰی (رض) قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) إِذَا بَعَثَ أَحَدًا مِّنْ أَصْحَابِہٖ فِیْ بَعْضِ أَمْرِہٖ قَالَ بَشِّرُوْا وَلَا تُنَفِّرُوْا وَ یَسِّرُوْا وَلَا تُعَسِّرُوْا) (رواہ البخاری : باب مَا کَان النَّبِیُّ (ﷺ) یَتَخَوَّلُہُمْ بالْمَوْعِظَۃِ وَالْعِلْمِ کَیْ لاَ یَنْفِرُوا) ” حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں نبی گرامی (ﷺ) جب اپنے ساتھیوں میں سے کسی کو کسی کام کیلئے بھیجتے تو فرماتے، لوگوں کو خوش خبری دینا، انہیں تقسیم نہ کرنا۔ ان کے ساتھ نرمی کرنا، مشکل میں مبتلا نہ کرنا۔“ (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) یَسِّرُوْا وَلَا تُعَسِّرُوْا وَسَکِّنُوْا وَلَا تُنَفِّرُوْا) (رواہ البخاری : باب قَوْلِ النَّبِیِّ (ﷺ) یَسِّرُوا، وَلاَ تُعَسِّرُوا) ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں نبی معظم (ﷺ) نے فرمایا : نرمی کرو، مشکل میں نہ ڈالو، دوسرے کو سکون پہنچاؤ، اور نفرت نہ دلاؤ۔“ غیبت سے بچنے کا حکم : کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) قَالَ أَتَدْرُوْنَ مَاالْغِیْبَۃُ قَالُوا اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَمُ قَالَ ذِکْرُکَ اَخَاکَ بِمَا یَکْرَہُ قِیْلَ أَفَرَأَیْتَ اِنْ کَانَ فِیْ أَخِیْ مَا أَقُوْلُ قَالَ اِنْ کَانَ فِیْہِ مَاتَقُوْلُ فَقَدِ اغْتَبْتَہٗ وَ اِنْ لَمْ یَکُنْ فِیْہِ مَا تَقُوْلُ فَقَدْ بَھَتَّہٗ. (رواہ مسلم : وَفِیْ رِوَایَۃٍ اِذَاقُلْتَ لِاَخِیْکَ مَا فِیْہِ فَقَدِ اغْتَبْتَہٗ وَاِذَاقُلْتَ مَا لَیْسَ فِیْہِ فَقَدْ بَھَتَّہٗ) (رواہ مسلم : باب تحریم الغیبۃ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اکرم (ﷺ) نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ غیبت کیا ہے؟ صحابہ (رض) نے عرض کیا۔ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا : تم اپنے بھائی کو ان الفاظ کے ساتھ یاد کرو جنہیں وہ ناپسند کرتا ہے۔ عرض کیا گیا، اگر کسی بھائی میں وہ ناپسندیدہ بات موجود ہو جو میں کہہ رہاہوں تو۔ اس صورت میں آپ کا کیا ارشاد ہے؟ آپ نے فرمایا : اگر اس میں وہ بات موجود ہے جو تو کہہ رہا ہے تو پھر تو نے اس کی غیبت کی اور اگر اس میں وہ بات موجود نہیں، جو تو نے کہی ہے پھر تو نے اس پر بہتان لگایا۔ (مسلم) دوسری روایت میں ہے۔ اگر تو نے اپنے بھائی کی وہ بات کی، جو اس میں موجود ہے تو تو نے اس کی غیبت کی۔ اگر ایسی بات کہی جو اس میں موجود نہیں‘ تو پھر تو نے اس پر بہتان لگایا۔“ البتہ کسی کے مشورہ طلب کرنے پر دوسرے کی کمزوری بتلانا غیبت میں شامل نہیں ہوتا۔ بشرطیکہ ضرورت کے تحت دوسرے کی کمزوری بیان کرتے ہوئے نیت، الفاظ اور انداز اچھا ہو۔ حدیث کی مقدس کتب میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ برے القاب رکھنا گناہ کا کام ہے : مومنوں کو تیسرا حکم یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے برے نام اور القاب نہ رکھاکریں۔ یہاں مطلقاً القاب رکھنے سے منع نہیں کیا گیا بِئْسَ الِاسْمُĬکے الفاظ استعمال کیے ہیں کہ برے نام رکھنے سے اجتناب کرو۔ کسی کے اچھے کام اور اخلاق کی وجہ سے اسے اچھا لقب دینا نبی (ﷺ) کی سنت ہے۔ بے شک یہ لقب کسی کے طبعی رجحان کی بنیاد پر دیا جائے یا اچھے کام پر۔ جس طرح ایک دن آپ (ﷺ) نے حضرت علی کو زمین پر لیٹے ہوئے دیکھا تو محبت سے اسے ” ابو تراب“ کہہ کر بلایا۔ ابوہریرہ کو بلی کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھا تو اسے ابوہریرہ کے لقب کے ساتھ یاد کیا۔ صدیق اکبر کی صداقت کی وجہ سے انہیں ” اَلصِّدِیْق“ کے اعزاز سے سرفراز فرمایا۔ اس طرح حدیث میں کئی مثالیں پائی جاتی ہیں۔ لہٰذا کا معنٰی ہے کہ کسی کو ایسے نام یا لقب سے پکارا جائے جس میں وہ اپنی ہتک محسوس کرتاہو۔ البتہ اگر وہ کسی لقب یا نام میں اپنی تحقیر نہیں سمجھتا تو اسے اس لقب کے ساتھ پکارنے میں کئی حرج نہیں۔ حدیث میں اس کی بھی مثالیں پائی جاتی ہیں۔ 1۔” ذوالیدین“ یعنی لمبے ہاتھوں والا : آپ (ﷺ) کے دور میں ایک صحابی کے ہاتھ دوسرے صحابہ کے ہاتھوں سے قدرے لمبے تھے۔ لوگ اسے ذوالیدین کہہ کر پکارا کرتے تھے اور وہ اسے محسوس نہیں کرتے تھے۔ 2۔ حمار یعنی گدھا : ایک دیہاتی صحابی دوسروں سے زیادہ جفاکش اور محنتی تھا۔ زیادہ محنت کرنے کی وجہ سے لوگ اسے الحمار کہتے تھے۔ کیونکہ اس لقب سے اس کی توہین کرنا مقصود نہیں تھا بلکہ یہ لفظ اس کی جفاکشی اور محنت کاترجمان تھا۔ اس بنا پر لوگ اسے الحمار کہہ کر پکارتے تھے۔ اسی طرح اگر کسی شعبہ میں ایک ہی نام کے کئی مشہور لوگ ہوں اور ان کی شناخت کے لیے ان کو کسی ایسے لقب سے پکارا جائے جو بات ان میں موجود ہو تو ایسا لقب استعمال کرنے کی بھی ایک حد تک اجازت ہے بشرطیکہ اس کے پیچھے اس کی تحقیر مقصود نہ ہو۔ مسائل: 1۔ ایمانداروں کا فرض ہے کہ وہ ایک دوسرے کو برا مذاق نہ کریں۔ 2۔ ایمانداروں کا فرض ہے کہ وہ ایک دوسرے کے برے القاب نہ رکھیں۔ 3۔ ایمان لانے کے بعد برے القاب رکھنا اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرنا ہے۔ 4۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کریں گے وہ ظالم ہوں گے۔ تفسیر بالقرآن: کون لوگ ظالم ہیں : 1۔ اللہ کی مساجد کو ویران کرنے والا ظالم ہے۔ (البقرۃ:114) 2۔ اللہ کی گواہی کو چھپانے والا ظالم ہے۔ (البقرۃ:140) 3۔ اللہ پر جھوٹ باندھنے والا۔ (الانعام :12) 4۔ نبوت کا دعویٰ کرنے والا۔ (الانعام :93) 5۔ اللہ کی آیات کو جھٹلانے والا۔ (الاعراف :37) 6۔ اللہ کی آیات سن کر اعراض کرنے والا۔ (الکہف :57) 7۔ حق بات کو جھٹلانے والا۔ (العنکبوت :68) 8۔ سب سے بڑا ظالم وہ ہے جو اللہ پر جھوٹ بولتا ہے۔ (الکہف :15) 9۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے مانگنے والا۔ (یونس :106) 10۔ قرآن کی نصیحت سے منہ موڑنے والا۔ (الکہف :57) 11۔ اللہ کی آیات کو سن کر اعراض کرنے والا بڑا ظالم ہے۔ (السجدۃ:22) 12۔ اللہ کی آیات کو جھٹلانے اور لوگوں کو گمراہ کرنے والا بڑا ظالم ہے۔ (الانعام :144) 13۔ اس سے بڑا ظالم کون ہے ؟ جو اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے اور اس کی آیات کو جھٹلاتا ہے۔ (الانعام :21)