سورة الفتح - آیت 6

وَيُعَذِّبَ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْمُشْرِكِينَ وَالْمُشْرِكَاتِ الظَّانِّينَ بِاللَّهِ ظَنَّ السَّوْءِ ۚ عَلَيْهِمْ دَائِرَةُ السَّوْءِ ۖ وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَلَعَنَهُمْ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور تاکہ منافق مردوں اور عورتوں کو، اور مشرک مردوں اور عورتوں کو عذاب (٥) دے، جو اللہ کے ساتھ بد گمانی رکھتے ہیں، مصیبت لوٹ کر انہی پر آنے والی ہے، اور اللہ ان سے غضبناک ہوگیا ہے، اور ان پر لعنت بھیج دی ہے، اور ان کے لئے جہنم کو تیار کررکھا ہے، اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت6سے7) ربط کلام : صحابہ (رض) کو دنیا اور آخرت میں کامیابی کی نوید سنانے کے بعد منافقین اور مشرکین کو دنیا اور آخرت کی ذلت سے آگاہ کردیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (ﷺ) کے دور میں منافق مردوں اور منافق عورتوں، مشرک مرد اور مشرک عورتوں کو دنیا میں ان کے کیے کی سزا دی کیونکہ منافق اور مشرک اپنے اپنے خیال کے مطابق اللہ تعالیٰ کے بارے میں غلط عقیدہ رکھتے تھے اور مسلمانوں کے بارے میں برا سوچتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر دنیا میں لعنت کی اور آخرت میں ان کے لیے جہنم تیار کر رکھی ہے جورہنے کے اعتبار سے بدترین جگہ ہے۔ مدینے کے منافق مرد اور منافق عورتوں کا خیال تھا کہ مسلمان خالی ہاتھ مکہ کی طرف جا رہے ہیں اس لیے بچ کر واپس نہیں آئیں گے۔ یہی سوچ مشرکین مکہ اور ان کی عورتوں کی تھی وہ بھی سمجھتے تھے کہ اس بار مسلمان ہمارے ہاتھوں بچ کر نہیں جا سکیں گے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کا مشرکین مکہ پر اس طرح رعب ڈال دیا کہ وہ نبی (ﷺ) کے ساتھ مذاکرات کرنے پر مجبور ہوئے۔ کیونکہ ان پر اللہ تعالیٰ نے لعنت کی اور آخرت میں ان کے لیے جہنم تیار کی ہے جورہنے کے اعتبار سے بدترین جگہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ زمین و آسمانوں کے لشکر اللہ کے اختیار میں ہیں اور وہ اپنے فیصلے نافذ کرنے پر غالب ہے اس کے فیصلوں کو زمین و آسمانوں کی کوئی طاقت ٹال نہیں سکتی اور اس کے ہر حکم میں حکمت پنہاں ہوتی ہے۔ (التوبۃ:26) ” پھر اللہ نے اپنے رسول اور ایمان والوں پر اپنی سکینت نازل فرمائی، اور وہ لشکر اتارے جن کو تم نہیں دیکھ سکتے تھے اور ان لوگوں کو سزا دی جنہوں نے کفر کیا اور یہی کافروں کی سزا ہے۔“ ” اور اہل کتاب اور مومن کسی شک میں نہ رہیں، اور دل کے بیمار اور کفار یہ کہیں کہ بھلا اللہ کا اس عجیب بات سے کیا مطلب ہوسکتا ہے اس طرح اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت بخش دیتا ہے اور تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا اور جہنم کا ذکر اس کے سوا کسی غرض کے لیے نہیں کیا گیا ہے کہ لوگوں کو اس سے نصیحت ہو۔“ (المدثر :31) مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ کے بارے میں منافق مرد اور منافق عورتیں، مشرک مرد اور مشرک عورتیں بداعتقادی اور بد ظنی رکھتے ہیں۔ 2۔ منافق اور مشرک ہمیشہ مسلمانوں کے نقصان کے بارے میں سوچتے ہیں۔ 3۔ منافق مرد اور منافق عورتوں، مشرک مرد اور مشرک عورتوں پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوتا ہے اور ان پر لعنت برستی ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ نے منافقین اور مشرکین کے لیے جہنم تیار کی ہے جو رہنے کے اعتبار سے بدترین جگہ ہے۔ 5۔ زمین و آسمانوں کے لشکر ” اللہ“ کے اختیار میں ہے۔ 6۔ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے غالب اور حکمت والا ہے۔ تفسیر بالقرآن: مسلمانوں کے بارے میں منافقین اور مشرکین کی بری سوچ اور ان کی سزا : 1۔ منافق ” اللہ“ اور مومنوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ( البقرۃ:9) 2۔ رسول (ﷺ) کو منافق دھوکہ دینے کی کوشش کرتے تھے۔ ( المنافقون :1) 3۔ منافق نماز بھی دھوکہ دینے کی خاطر پڑھتے ہیں۔ ( النساء :142) 4۔ مشرکین مکہ مسلمانوں کو مسجد حرام سے روکا کرتے تھے۔ (الانفال :34) 5۔ کفار اور مشرک اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں۔ (التوبہ :32) 6۔ منافق جہنم کے نچلے طبقہ میں ہوں گے۔ (النساء :145) 7۔ مشرکین کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ (ابراہیم :30)