سورة الفتح - آیت 1

إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اے میرے نبی ! ہم نے بے شک آپ کو کھلی اور صریح فتح (١) دی ہے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت1سے3) ربط سورت : سورت محمد (ﷺ) کا اختتام اس فرمان پر ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہے تو تمہاری جگہ دوسری قوم لاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک قوم کی جگہ دوسری قوم لانے کے کئی طریقے ہیں جن میں ایک طریقہ یہ ہے کہ پہلی قوم کا سیاسی اقتدار اور سماجی اثر و رسوخ ختم کردیا جائے اور اس کی جگہ دوسری قوم کو موقع دیا جائے جس کی واضح مثال فتح مکہ میں پائی جاتی ہے۔ نبی معظم (ﷺ) نے ایک رات خواب دیکھا کہ میں اپنے اصحاب کے ساتھ بیت اللہ کی زیارت اور اس کا طواف کررہا ہوں جس میں سال اور وقت کا تعین واضح نہیں تھا۔ بیت اللہ کی زیارت کا شوق اور حالات کے تقاضے کے پیش نظر آپ (ﷺ) نے صحابہ میں اعلان فرمایا کہ تیاری کرو کہ ہم عمرہ کے لیے مکہ معظمہ کا سفر کرنے والے ہیں اور یہ بات مجھے خواب میں بتلائی گئی ہے۔ اس خواب کا اشارہ سورۃ بنی اسرائیل کی آیت 60میں موجود ہے۔ نبی معظم (ﷺ) چودہ سو صحابہ کے ساتھ مکہ معظمہ کی طرف روانہ ہوئے جب آپ مکہ کے قریب پہنچے تو حضرت عباس (رض) جو اس وقت تک مکہ میں ہی مقیم تھے انہوں نے خفیہ ذرائع کے ذریعے آپ کو اطلاع دی کہ مکہ والے آپ کو کسی صورت عمرہ کرنے کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں۔ نہ صرف اجازت دینے کے لیے تیار نہیں بلکہ آپ کے ساتھ پوری طرح جنگ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس اطلاع پر نبی کریم (ﷺ) نے مکہ کی طرف جانے والا عام راستہ چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کیا اور حالات کے پیش نظر مکہ جانے کی بجائے حدیبیہ کے مقام پر قیام فرمایا تاکہ اہل مکہ کو اپنے سفر کا مقصد بتلانے کے ساتھ سمجھایا جائے کہ ہم عمرہ کے لیے آئے ہیں اس کے سوا ہمارے آنے کا کوئی اور مقصد نہیں۔ لیکن اہل مکہ سمجھتے تھے کہ اگر ہم نے ان حالات میں آپ کو عمرہ کی اجازت دی تو لوگ سمجھیں گے کہ مکہ والے محمد (ﷺ) اور اس کے ساتھیوں سے ڈر گئے ہیں۔ اس لیے وہ کسی صورت میں آپ کو مکہ داخل ہونے کی اجازت دینے کے لیے تیار نہ تھے۔ آپ (ﷺ) نے انہیں اپنی آمد کی حقیقت بتلانے کے لیے حضرت عثمان کو مکہ روانہ کیا۔ حضرت عثمان (رض) مذاکرات کرنے کے لیے مکہ پہنچے تو انہیں واپس آنے میں کچھ تاخیر ہوئی جس بنا پر صحابہ کرام (رض) میں بہ بات عام ہوگئی کہ اہل مکہ نے حضرت عثمان (رض) کو شہید کردیا ہے اس پر نبی (ﷺ) نے حضرت عثمان (رض) کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے صحابہ کرام سے بیعت لی جس کا ذکر اسی سورت کی آیت 10تا 18میں موجود ہے۔ واقعہ کی تفصیلات جاننے کے لیے سیرت کی کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ خلاصہ یہ ہے کہ دونوں طرف سے مذاکرات کے نتیجے میں بالآخر ایک معاہدہ قرار پایا جس کی درجہ ذیل شرائط طے پائیں۔ 1۔ اس سال مسلمان عمرہ نہیں کرسکتے البتہ اگلے سال انہیں عمرہ کرنے کی اجازت ہوگی۔ 2۔ اگر مکہ والوں میں کوئی شخص مسلمان ہو کر مدینہ پہنچے تو اسے واپس کرنا ہوگا اور اگر مسلمانوں میں سے کوئی شخص مکہ آئے گا تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا۔ 3۔ مسلمان اگلے سال عمرہ کے لیے آئیں گے تو ان کے ساتھ کسی قسم کا اسلحہ نہیں ہونا چاہیے۔ مکہ والے تین دن کے لیے مکہ خالی کردیں گے۔ 4۔ آپس میں دس سال تک جنگ نہیں کی جائے گی۔ 5۔ اہل مکہ اور مسلمان جن قبائل کو چاہیں گے اپنا حلیف بنا سکیں گے۔ کچھ صحابہ نے ابتداً معمولی سا اختلاف کیا لیکن اس کے بعد فی الفور تمام صحابہ نے اس معاہدے کو تسلیم کیا جن کی تعداد چودہ سو تھی۔ اس کے بعد آپ (ﷺ) مدینہ کی طرف واپس ہوئے۔ راستے میں سورۃ الفتح کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں جن میں اللہ تعالیٰ نے پورے جلال کے ساتھ ارشاد فرمایا کہ اے نبی! ہم نے واضح طور پر آپ کو فتح عطا فرمادی ہے تاکہ آپ کے اگلے پچھلے گناہ معاف کردیئے جائیں اور آپ پر اپنی نعمت کا اتمام فرمائے، آپ کو صراط مستقیم پر گامزن رکھے اور آپ کی زبردست مدد فرمائے۔ صلح حدیبیہ کو درج ذیل امور کی وجہ سے فتح مبین قرار دیا گیا ہے۔ 1۔ نبی اکرم (ﷺ) نے مکہ کا سفر اختیار کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ جب چاہیں ہم مکہ میں داخل ہوسکتے ہیں۔ 2۔ نبی معظم (ﷺ) نے یہ بھی ثابت کردیا کہ اسلام تلوار کے ذریعے نہیں بلکہ اخلاق اور تبلیغ کے ذریعے پھیلتا ہے 3۔ آپ (ﷺ) نے اپنے نہتے ساتھیوں کو موت کے منہ سے بچا لیا کیونکہ صحابہ کرام (رض) کا فرمان ہے کہ اگر مکہ والوں کے ساتھ جنگ ہوجاتی تو اس میں بظاہر ہماری موت یقینی تھی۔ 4۔ آپ (ﷺ) نے مکہ والوں پر اخلاقی فتح حاصل کی کیونکہ اس معاہدہ کے ذریعے یہ ثابت ہوگیا کہ مسلمان برابر کی چوٹ رکھتے ہیں بظاہر مکہ والے کرّو فر دکھا رہے تھے لیکن حقیقت میں مسلمانوں کی طاقت تسلیم کرچکے تھے۔ 5۔ صلح حدیبیہ سے تعصبات کی دیواریں ٹوٹ گئیں اور اسلام کی تبلیغ کا راستہ ہموار ہوا۔ 6۔ ٹھیک دو سال سے پہلے مکہ فتح ہوا اور مکہ کے بڑے بڑے سردار معافی کے خواستگار ہوئے جنہیں آپ نے معاف فرمادیا اور انہوں نے خوشدلی کے ساتھ اسلام قبول کرلیا۔ 7۔ اللہ تعالیٰ نے اسلام اور مسلمانوں کو غالب فرمایا۔ 8۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کی ہر میدان میں زبردست مدد فرمائی۔ 9۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کو اس موقع پر بر وقت اور ٹھیک ٹھیک فیصلہ کرنے کی راہنمائی فرمائی۔ (الفتح :2) ” تاکہ اللہ آپ کے اگلے پچھلے گناہ معاف فرمائے۔“ (تفصیل کے لیے سورۃ محمد کی آیت 19کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔) (عَنِ الْمُغِیْرَۃِ (رض) قَالَ قَام النَّبِیُّ () حَتّٰی تَوَرَّمَتْ قَدَمَاہُ فَقِیْلَ لَہُ لِمَ تَصْنَعُ ھٰذَا وَقَدْ غُفِرَ لَکَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ قَالَ اَفَلَا اَکُوْنَ عَبْدًا شَکُوْرًا) (رواہ البخاری : باب قِیَام النَّبِیِّ () حَتَّی تَرِمَ قَدَمَاہُ) ” حضرت مغیرہ (رض) ذکر کرتے ہیں نبی اکرم (ﷺ) رات کو اس قدر قیام کرتے کہ آپ کے قدم سوج جایا کرتے تھے۔ جب آپ سے عرض کیا گیا کہ آپ اس قدر کیوں قیام کرتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے پہلے اور پچھلے گناہ معاف کردیے ہیں؟ فرمایا کیا مجھے اس کا شکرگزار بندہ نہیں بننا چاہیے۔“ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی مدد کرنے والا ہے : 1۔ اللہ کے سوا نہ تمہارا کوئی دوست ہے اور نہ کوئی مددگار۔ (البقرۃ:107) 2۔ اللہ نے یہ لکھ دیا کہ وہ اور اس کے رسول غالب آئیں گے۔ (المجادلہ :21) 3۔ ” اللہ“ نے حنین کے موقعہ پر اپنے بندوں کی مدد فرمائی۔ ( التوبہ :25) 4۔ اللہ نے غار ثور میں نبی (ﷺ) کی مدد فرمائی۔ ( التوبہ :40) 5۔ اللہ اپنے رسولوں اور مومنوں کی مدد فرماتا ہے۔ (الانفال :62) 6۔ اللہ نے اپنا رسول اس لیے مبعوث فرمایا کہ اس کے دین کو تمام ادیان پر غالب کر دے۔ ( الفتح :28) 7۔ نہیں ہے تمھارے لیے اللہ کے سوا کوئی دوست اور سفارشی پھر تم کیوں نصیحت نہیں حاصل کرتے۔ (السجدۃ:4)