الَّذِينَ قَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ وَقَعَدُوا لَوْ أَطَاعُونَا مَا قُتِلُوا ۗ قُلْ فَادْرَءُوا عَنْ أَنفُسِكُمُ الْمَوْتَ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
انہی لوگوں نے اپنے بھائیوں (114) کہا اور بیٹھ گئے کہ اگر ہماری بات مانتے تو قتل نہ کیے جاتے، آپ کہہ دیجئے کہ اگر تم سچے ہو تو پھر موت کو اپنے آپ سے ٹال دو۔
فہم القرآن : ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ بدر میں مسلمانوں کے ساتھ منافق شامل نہیں تھے اس لیے مسلمان پوری یکسوئی کے ساتھ جان توڑ کر لڑے۔ احد کا معاملہ نہایت ہی مختلف تھا کہ پہلے دن کی مشاورت سے لے کر دونوں جماعتوں کے مد مقابل آنے تک منافقوں کی بھاری تعداد مسلمانوں کے ساتھ شامل رہی۔ منافق ایک سوچی سمجھی گہری سازش کے تحت اس وقت مسلمانوں کو چھوڑ کر الگ ہوئے جب اہل مکہ یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ منافقین نے جان بوجھ کر مسلمانوں میں ہر قسم کی غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی تاکہ مسلمان بددل ہو کر کفار کے سامنے ہتھیار ڈال دیں۔ اس طرح ایک تیر سے دو شکار ہوجائیں۔ ایک طرف مسلمان ذلیل ہوں اور دوسری طرف منافقت کا پردہ چاک نہ ہونے پائے۔ اسی سازش کا تسلسل تھا کہ وہ آخر تک مسلمانوں کو بزدل بنانے کی کوشش کرتے رہے۔ میدان جنگ میں منافق جب ٹولیوں کی صورت میں کفار کو دکھا دکھا کر نکل رہے تھے تو بعض صحابہ جن میں سر فہرست جابر کے والد جناب عبداللہ بن عمرو بن حرام انصاری (رض) تھے انہوں نے سر توڑ کوشش کی کہ کسی طریقے سے منافق مسلمانوں سے الگ ہونے سے باز آجائیں لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ اُحد میں مسلمان شہید ہوئے تو منافقین نے ان کے لواحقین کو بداعتقادی کا شکار کرنے اور ان کی پریشانی میں اضافہ کرنے کے لیے کہا کہ اگر وہ ہماری بات مان لیتے تو اس طرح قتل نہ کیے جاتے‘ خواہ مخواہ اور بے مقصد ان لوگوں نے اپنی جانوں کو ضائع کیا ہے۔ خاص طور پر حضرت جابر (رض) کے والد عبداللہ بن عمرو (رض) کے بارے میں انہوں نے یہ پروپیگنڈہ کیا کہ یہ تو جانور کی موت مرا کیونکہ افرا تفری کے عالم میں حضرت عبداللہ (رض) کو اپنے ہی کسی ساتھی کی تلوار کا وار لگا اور وہ شہید ہوگئے۔ اس پر منافقین کا تعاقب کرتے ہوئے انہیں چیلنج دیا گیا کہ جب تمہیں موت آئے گی تو اسے اپنے سے دھکیل کراپنے آپ کو بچا کر دکھانا اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو ؟ مسائل : 1۔ موت سے کوئی بھی چھٹکارا نہیں پاسکتا۔ 2۔ منافق مسلمانوں کے ساتھ مخلص نہیں ہوتا۔