سورة محمد - آیت 22

فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِن تَوَلَّيْتُمْ أَن تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

پس اگر تم حاکم بن جاؤ گے تو تم سے یہی توقع ہے کہ زمین میں فساد پھیلاؤ گے، اور اپنی رشتہ داریوں کو کاٹو گے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 22 سے 24) ربط کلام : منافق قتال فی سبیل اللہ سے کَنّی کتراتے ہیں لیکن دنگا فساد کرنے میں تیز ہوتے ہیں۔ قرآن مجید نے منافق کی نشانیاں بتلاتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ جب ان لوگوں کو سمجھایا جائے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو باز آنے کی بجائے کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں۔ اے مسلمانو! آگاہ ہوجاؤ۔ یہ لوگ فساد کرنے والے ہیں لیکن حقیقت میں شعور نہیں رکھتے۔ (البقرۃ: 11، 12) منافقین کی اسی روش کے باعث یہ ارشاد ہوا ہے کہ اگر ان لوگوں کو ملک میں کچھ اختیارات حاصل ہوجائیں تو یقیناً یہ لوگ ملک میں فساد کریں گے اور رشتہ داریوں کو توڑ ڈالیں گے۔ ان کے اس کردار کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان پر لعنت کی ہے جس بنا پر یہ کانوں سے بہرے اور آنکھوں سے اندھے ہوچکے ہیں۔ انہیں قرآن مجید کے ارشادات اور ہدایات پر غور کرنا چاہیے تھا۔ لیکن یہ قرآن مجید کی ہدایات سے اس طرح لاپرواہ ہوچکے ہیں جیسے ان کے دلوں پر تالے پڑے ہوئے ہوں۔ قرآن مجید نے کفار، مشرکین اور منافقین کے بارے میں یہ بھی بتلایا ہے کہ ان کے دل ہیں مگر ان سے سوچتے نہیں، ان کی آنکھیں ہیں لیکن ان سے دیکھتے نہیں، ان کے کان ہیں مگر ان سے سنتے نہیں یہ لوگ چوپاؤں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے ہیں۔ (الاعراف :179) دوسرے مقام پر اسی بات کو یوں بیان کیا ہے کہ یہ لوگ زمین پر چلتے پھرتے اور ان کے دل سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پاتے اور ان کے کان حقیقت سننے کی کوشش کرتے لیکن حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتی بلکہ سینوں میں دل اندھے ہوجاتے ہیں۔ (الحج :42) منافق کی دوسری بری عادت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے مفاد کی خاطر قطع تعلقی کرتے ہوئے آنکھیں ماتھے پر رکھ لیتا ہے اور اپنے مفاد کی خاطر کسی قسم کے تعلق اور رشتے کی پرواہ نہیں کرتا اس لیے فرمایا ہے کہ منافق زمین میں فساد کرتے ہیں اور رشتہ داریوں کو توڑ ڈالتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے بار بار اس بات کا حکم دیا ہے کہ رشتہ داریوں کا خیال رکھا جائے۔ جو لوگ رشتہ داریوں کا خیال نہیں رکھتے وہ دنیا وآخرت میں نقصان پائیں گے۔ ( البقرۃ:27) (عَنْ عَائِشَۃَ (رض) قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () الرَّحِمُ مُعَلَّقَۃٌ بالْعَرْشِ تَقُوْلُ مَنْ وَصَلَنِیْ وَصَلَہُ اللّٰہُ وَمَنْ قَطَعَنِیْ قَطَعَہُ اللّٰہُ) (رواہ مسلم : باب صلۃ الرحم وتحریم قطیعتھا) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول کریم (ﷺ) فرماتے ہیں رحم عرش کے ساتھ لپٹ کر کہتا ہے جو مجھے ملائے اللہ اسے ملائے اور جو مجھے کاٹے اللہ اسے کاٹ ڈالے۔“ اسلام میں رشتہ داریوں کا اس قدر خیال رکھا گیا ہے کہ نبی (ﷺ) نے لونڈی اور اس کی اولاد کے درمیان جدائی کرنے کی اجازت نہیں دی۔ (عَنْ أَبِی مُوسَی قَالَ لَعَنَ رَسُول اللّٰہِ () مَنْ فَرَّقَ بَیْنَ الْوَالِدَۃِ وَوَلَدِہَا وَبَیْنَ الأَخِ وَأُختِہِ) (رواہ ابن ماجہ : بَاب النَّہْیِ عَنِ التَّفْرِیقِ بَیْنَ السَّبْیِ) ” ابو موسیٰ اشعری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ماں اور اس کے بیٹے، بہن اور اس کے بھائی کے درمیان تفریق کرنے والے پر لعنت فرمائی۔“ مسائل: 1۔ منافقین کو ملک میں اقتدار حاصل ہو تو وہ فساد برپا کرتے ہیں۔ 2۔ منافقین اپنے مفاد اور عادت کے پیش نظر رشتہ داریوں کا خیال نہیں رکھتے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے منافقین پر لعنت کی ہے جس وجہ سے ان کے کان بہرے اور ان کی آنکھیں اندھی ہوتی ہیں۔ 4۔ بہرے اور اندھے ہونے کی وجہ سے منافقین کے دلوں پر تالے پڑچکے ہیں۔ تفسیر بالقرآن: کن لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہوتی ہے : 1۔ بے گناہ مومن کو جان بوجھ کر قتل کرنے والے پر لعنت اور اسے اللہ کا عذاب ہوگا۔ (النساء :93) 2۔ کافروں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت اور ان کو جہنم کا عذاب ہوگا۔ (الاحزاب :64) 3۔ یہودیوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے۔ (المائدۃ:64) 4۔ اللہ اور رسول کو ایذا پہنچانے والوں پرلعنت برستی ہے۔ (الاحزاب :57) 5۔ منافقین پر اللہ تعالیٰ کی لعنت اور ان کے لیے جہنم کا عذاب ہے۔ (الفتح :6)