أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ دَمَّرَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ ۖ وَلِلْكَافِرِينَ أَمْثَالُهَا
کیا انہوں نے زمین میں سفر کرکے دیکھا نہیں کہ ان کافروں کا کیسا انجام (٤) ہوا جو ان سے پہلے گذر چکے ہیں، اللہ نے ان کے اوپر سے ان کے گھروں کو تباہ کردیا، اور مکہ کے کافروں کے لئے بھی ایسی ہی سزا ہے
فہم القرآن: (آیت 10 سے 11) ربط کلام : اس سے پہلی آیت میں مسلمانوں کی مدد کرنے کا وعدہ اور کفار کی ہلاکت کا ذکر ہے اس لیے ارشاد ہوا کہ کفار کی تباہی دیکھنا چاہو تو زمین پر چل پھر کر دیکھو۔ انسان جن چیزوں سے سبق حاصل کرتا ہے ان میں پہلی اقوام کے آثار اور نشانات بھی اس کی عبرت کا باعث بنتے ہیں اس لیے قرآن مجید میں کئی مرتبہ لوگوں کو اس بات کی دعوت دی گئی ہے کہ لوگو! زمین پر چل کر ان لوگوں کے آثار اور نشانات دیکھو جنہیں اللہ تعالیٰ نے تباہ و برباد کیا ہے۔ یہی حکم اہل مکہ کو دیا گیا کہ کیا وہ اپنے سے پہلے باغیوں کا انجام نہیں دیکھتے ؟ کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں کس طرح تباہ کیا اور اسی طرح ہی تمہارے ساتھ ہوگا۔ ایسا اس لیے کیا گیا اور ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ ایمانداروں کی مدد کرتا ہے اور کفارکو تباہ کرتا ہے۔ قرآن مجید میں حضرت نوح (علیہ السلام) اور دوسرے انبیائے کرام (علیہ السلام) کے مخالفین کی ناکامی اور بربادی کا بڑی تفصیل کے ساتھ ذکر ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں کس کس جرم میں تباہ کیا اور وہ کس طرح ذلیل اور تباہ کردیئے گئے۔ ایسا اس لیے کیا گیا ہے تاکہ مومنوں کو یقین ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ بالآخر مومنوں کی مدد کرتا ہے اور کفار کو ذلیل اور ناکام بنا دیتا ہے کیونکہ وہ کفار کی بجائے مومنوں کا مددگار ہے بشرطیکہ مومن ایمان کے تقاضے پورے کریں۔ اللہ تعالیٰ مومنوں کا مولیٰ ہے اور کافروں کا مولیٰ نہیں ہے یہی بات غزوہ احد کے موقع پر ابوسفیان کے جواب میں کہی گئی۔ جب اس نے بلند آواز سے کہا تھا کہ آج ھبل بلند ہوگیا۔ یاد رہے کہ مکہ والوں نے ھبل کا بت بیت اللہ کی چھت پر رکھا ہوا تھا۔ ( اَللّٰہُ اَعْلٰی وَاَجَلُّ) ” اللہ بلند و بالا اور عظمت والا ہے۔“ حضرت عمر (رض) نے یہ بھی فرمایا کہ احد بدر کا بدلہ نہیں ہوسکتا کیونکہ تمہارے مرنے والے جہنم کا ایندھن بنے اور ہمارے شہید جنت کے مہمان قرار پائے ہیں۔ (رواہ البخاری : کتاب المغازی، باب غزوۃ أحد) (اَلْاِسْلَامُ یَعْلُوْوَلَا یُعْلیٰ) (ارواء الغلیل از الالبانی، حدیث نمبر : 1268، ھٰذا حدیث حسن) ” اسلام غالب آئے گا اور اس پر کوئی غالب نہیں آئے گا۔“ 1۔ اہل مکہ نے نبی محترم (ﷺ) اور آپ کے ساتھیوں کو ختم کرنے کی کوشش کی لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ اور آپ کے ساتھیوں کو ترقی نصیب فرمائی۔2۔ ہجرت کے موقع پر کفار نے نبی معظم (ﷺ) کو قتل کرنے کی کوشش کی لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں ناکام اور ذلیل کردیا۔ 3۔ بدر کے موقع پر کفار نے کہا کہ مسلمانوں کو ختم کردیا جائے گا لیکن اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد فرمائی اور کفار مکہ کو ہمیشہ ہمیش کے لیے ذلیل کردیا۔4۔ اُحد کے موقع پر اہل مکہ نے مسلمانوں پر دوبارہ حملہ کرنا چاہا لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں بزدل بنا دیا اور وہ فتح کی حسرت لے کر مکہ کی طرف واپس گئے۔5۔ غزوہ خندق کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد فرمائی اور کفار کے دس ہزار لشکر کو ناکام کردیا۔ 6۔ فتح مکہ کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے نبی (ﷺ) اور مسلمانوں کو سربلند فرمایا اور کفار سرنگوں ہوکرمعافی کے خواستگار ہوئے۔7۔ اللہ تعالیٰ نے منافقین کو پوری طرح رسوا کیا اور نبی معظم (ﷺ) کو ان کی سازشوں سے محفوظ فرمایا۔ 8۔ اللہ تعالیٰ نے غزوہ تبوک کے موقع پر رومیوں کو پسپا کیا۔ نبی (ﷺ) اور مسلمانوں کو رہتی دنیا تک سربلند فرمایا۔9۔ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو سربلند فرمایا اور کفر کو سرنگوں کردیا۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ نے مجرم اقوام کو ذلیل اور نیست ونابود کردیا : 1۔ اللہ تعالیٰ نے بہت سی اقوام کو تباہ کیا۔ (الانعام :6) 2۔ قوم نوح طوفان کے ذریعے ہلاک ہوئی۔ (الاعراف :136) 3۔ جب تم سے پہلے لوگوں نے ظلم کیا تو ہم نے ان کو تباہ کردیا۔ (یونس :13) 4۔ عاد زبر دست آندھی کے ذریعے ہلاک ہوئے۔ (الحاقہ :6) 5۔ فاسق ہلاک کردیے گئے۔ (الاحقاف :35) 6۔ ثمود زور دار دھماکے کے ساتھ ہلاک کیے گئے۔ (الحاقہ :5) 7۔ آل فرعون کو سمند میں ڈبو دیا گیا۔ (ٍیونس :90) 8۔ قوم لوط کو زمین سے اٹھا کر آسمان کے قریب لے جاکر الٹا دیا گیا۔ (ھود :82) 9۔ ہم نے مکہ والوں سے پہلے کئی بستیوں کو ہلاک کیا جو ٹھاٹھ باٹھ میں ان سے بہت آگے تھے۔ (مریم :74) 10۔ ہم نے ان سے پہلے کئی امتیں ہلاک کر ڈالیں، جو قوت میں مکہ والوں سے بڑھ کر تھیں۔ (ق :36)