سورة الأحقاف - آیت 29

وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ فَلَمَّا حَضَرُوهُ قَالُوا أَنصِتُوا ۖ فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا إِلَىٰ قَوْمِهِم مُّنذِرِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور جب ہم نے آپ کی طرف جنوں کی ایک جماعت (٢٠) کو قرآن سننے کے لئے پھیر دیا تھا، پس جب وہ رسول اللہ کے پاس پہنچے تو انہوں نے کہا کہ تم سب کان لگا کر سنو، جب تلاوت ختم ہوگئی، تو وہ اپنی قوم کے پاس گئے، درانحالیکہ وہ انہیں عذاب الٰہی سے ڈرانے والے تھے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 29 سے 31) ربط کلام : اہل مکہ اور اہل طائف کا قرآن مجید سے انحراف مگر جنوں کا قرآن مجید کی طرف متوجہ ہونا۔ اکثر مفسرین نے اس آیت کا شان نزول بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ نبی (ﷺ) مکہ والوں سے مایوس ہو کر اہل طائف کی طرف گئے اور انہیں اپنی دعوت پیش کی مگر انہوں نے مکہ والوں سے بھی شدید ردِعمل کا اظہار کیا۔ نبی کریم (ﷺ) کو پتھرمار مار کر لہو لہان کردیا۔ اس کی تفصیل تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں دیکھنی چاہیے۔ نبی کریم (ﷺ) طائف سے شکستہ دل اور زخمی جسم کے ساتھ واپس آہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے مکہ اور طائف کے درمیان نخلہ وادی میں جنوں کو آپ کی طرف متوجہ فرمایا۔ جب جنوں کی جماعت نے آپ کی زبان اطہر سے قرآن مجید کی تلاوت سنی تو وہ ایک دوسرے کو کہنے لگے کہ یہ ” اللہ“ کا کلام ہے۔ لہٰذا نہایت ادب اور خاموشی کے ساتھ اس کی تلاوت سنو ! جن آپ کی زبان اطہر سے قرآن مجید سن کر اپنی قوم کی طرف گئے تو انہوں نے اپنی قوم کو کہا کہ بے شک ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ایسی کتاب سنی ہے جو پہلی کتابوں کی تائید اور تصدیق کرتی ہے یہ کتاب حق ہے اور صرا طِ مستقیم کی راہنمائی کرتی ہے۔ اے ہماری قوم ! آپ سے ہماری اپیل ہے کہ اس داعی الیٰ اللہ کی دعوت قبول کرو اور اس پر ایمان لاؤ! اللہ تعالیٰ تمہارے گناہوں کو معاف کرے گا اور تمہیں جہنم کے اذّیت ناک عذاب سے محفوظ رکھے گا۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے کفار اور جنوں کے رد عمل کا موازنہ کیا ہے۔ 1۔ مکہ کے سردار! اپنی قوم سے کہتے تھے کہ قرآن سن کر شورو غوغا کیا کرو۔ جبکہ جنوں نے قرآن کی تلاوت سن کر اپنے ساتھیوں سے کہا کہ یہ اللہ کا کلام ہے اسے نہایت ادب اور توجہ سے سنو! 2۔ اہل مکہ لوگوں کو نبی کریم (ﷺ) سے متنفر کرتے تھے ان کے مقابلے میں جنوں نے اپنے ساتھیوں کو قرآن اور نبی (ﷺ) کی طرف متوجہ کیا۔ 3۔ اہل مکہ قرآن مجیدکو پہلے لوگوں کی کہانیاں قرار دیتے تھے، جنوں نے قرآن مجید کو اللہ کی کتاب سمجھا اور پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والا تسلیم کیا۔ 4۔ اہل مکہ قرآن مجید کی دعوت کو گمراہی سمجھتے تھے۔ جنوں نے قرآن مجید کو حق اور صراط مستقیم کی راہنمائی کرنے والا قرار دیا۔ 5۔ اہل مکہ اور طائف والوں نے نبی کریم (ﷺ) کے ساتھ بدسلوکی کی اور آپ کی دعوت کو ٹھکرایا۔ جنوں کے وفد نے واپس جا کراپنے ساتھیوں کے سامنے نبی کریم (ﷺ) کو داعی الیٰ اللہ کے طور پر پیش کیا اور آپ پر ایمان لانے کی دعوت دی۔ 6۔ اہل مکہ قرآن اور نبی (ﷺ) پر ایمان لانے کی بجائے آپ سے عذاب لانے کا مطالبہ کرتے تھے۔ جنوں نے اپنے ساتھیوں کو ایمان لانے کی دعوت دی اور انہیں یقین دلایا کہ ایمان لانے سے ہمارے گناہ معاف ہوجائیں گے اور ہم اللہ کے عذاب سے محفوظ رہیں گے۔ ان آیات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نبی (ﷺ) صرف انسانوں کے لیے نہیں بلکہ جنوں کے لیے بھی نبی مبعوث کیے گئے ہیں۔ اس لیے آپ پر جن ایمان لائے جو پہلے موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لا چکے تھے۔ جنوں نے موسیٰ اور ان پر نازل ہونے والی تورات کا اس لیے حوالہ دیاتھاکیونکہ تورات کے بعد قرآن مجید ہی جامع اور مفصل کتاب ہے۔ جہاں تک انجیل کا معاملہ ہے اس کے بارے میں انجیل میں موجود ہے کہ عیسیٰ ( علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں تورات کی تکمیل کرنے کے لیے آیا ہوں۔ (تدبر قرآن جلد ٧، ص :378) یہ بھی ممکن ہے کہ جنوں کو عیسیٰ ( علیہ السلام) کی دعوت کا علم نہ ہو اس لیے انہوں نے انجیل کی بجائے تورات کا حوالہ دیا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ کے پاس حاضر ہونے والے جن عیسیٰ (علیہ السلام) کو نہ مانتے ہوں۔ جہاں تک جن اور ہماری شریعت کا معاملہ ہے۔ اس کے بنیادی ارکان جن وانس کے لیے ایک ہیں مگر ان کے عملی تقاضوں میں فرق ہوسکتا ہے کیونکہ جنوں اور انسانوں کی ضروریات کے درمیان بڑا فرق ہے۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) کی تائید اور حوصلہ افزائی کے لیے جنوں کو آپکی طرف متوجہ فرمایا۔ 2۔ جنوں نے قرآن مجید کو نہایت ادب اور خاموشی کے ساتھ سنا اور اس پر ایمان لائے۔ 3۔ جن ایمان لا کر اپنی قوم کے لیے داعی ثابت ہوئے۔ 4۔ تورات کے بعد قرآن مجید ہی جامع اور مفصل کتاب ہے۔ 5۔ قرآن مجید لوگوں کی حق اور صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ 6۔ جو لوگ قرآن مجید پر ایمان لاتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے گناہ معاف کرتا ہے اور انہیں عذاب سے بچالیتا ہے۔ 7۔ جو لوگ جنوں کے وجود کا انکار کرتے ہیں انہیں اس واقعہ پر غور کرنا چاہیے اور درج ذیل تفسیر بالقرآن: کے دلائل پر توجہ کرنی چاہیے ۔ تفسیر بالقرآن: قرآن مجید میں جنوں کا تذکرہ : 1۔ جن اور انسان اللہ کی عبادت کے لیے پیدا کئے گئے ہیں۔ (الذاریات :56) 2۔ جن غیب نہیں جانتے۔ (سبا :14) 3۔ جن اور انسان مل کر اس جیسا قرآن بنا لائیں۔ (بنی اسرائیل :88) 4۔ جن و انس مل کر قیامت تک ایک سورۃ بھی اس جیسی نہیں بناسکتے۔ (البقرۃ :23) 5۔ اے انسانوں اور جنوں اگر تم خدا کی خدائی سے نکل سکتے ہو نکل جاؤ۔ ( الرّحمن :33) 6۔ اللہ تعالیٰ نے جنوں کو سلیمان (علیہ السلام) کے تابع کردیا۔ ( سبا :12) 7۔ جنوں نے نبی اکرم (ﷺ) سے قرآن سن کر تعجب کا اظہار کیا۔ (الجن :1) 8۔ پہلے دور میں انسان جنوں سے پناہ لیا کرتے تھے۔ (الجن : 6) 9۔ جنوں کو یقین نہیں تھا کہ جن وانس میں سے کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرسکتا ہے۔ (الجن :5)