قُلْ أَرَأَيْتُم مَّا تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ أَرُونِي مَاذَا خَلَقُوا مِنَ الْأَرْضِ أَمْ لَهُمْ شِرْكٌ فِي السَّمَاوَاتِ ۖ ائْتُونِي بِكِتَابٍ مِّن قَبْلِ هَٰذَا أَوْ أَثَارَةٍ مِّنْ عِلْمٍ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
اے میرے نبی ! آپ کہہ دیجیے، ذرا غور تو کرو، اللہ کے سوا جن معبودوں کو تم پکارتے ہو، مجھے دکھاؤ تو سہی کہ انہوں نے زمین کا کون سا حصہ پیدا (٤) کیا ہے، یا آسمانوں کی تخلیق میں ان کا کوئی اشتراک ہے، اگر تم سچے ہو تو اس قرآن سے پہلے کی کوئی کتاب یا کوئی نقل شدہ علم لاؤ
فہم القرآن: ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو پیدا فرمایا اور اس کی ایک مدت مقرر کی ہے۔ پوری مخلوق کے پیدا کرنے اور ان کی ایک مدت مقرر کرنے میں کسی کا ذرّہ برابر عمل دخل نہیں۔ لیکن اس کے باوجود لوگ حقیقی خالق اور مالک کو چھوڑ کردوسروں کی بندگی اور غلامی کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو ٹھوس دلائل کے ساتھ باربار یہ حقیقت بتلائی اور سمجھائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اس کائنات کا کوئی خالق اور مالک نہیں۔ چاہے تو یہ کہ لوگ اپنے خالق اور مالک کی بندگی کریں اور اس کا حکم مانیں لیکن ” اللہ“ کو خالق اور مالک ماننے کے با وجود لوگ دوسروں کی بندگی اور غلامی کرتے ہیں۔ ان لوگوں کے کان کھولنے کے لیے پھر ارشاد فرمایا ہے کہ اے نبی (ﷺ) ! ان لوگوں سے اس بات کا جواب طلب کریں کہ جن کو تم ” اللہ“ کے سوا پکارتے اور جن کی تم عبادت کرتے ہو بتاؤ! انہوں نے زمین میں کون سی چیز پیدا کی ہے یا آسمانوں کی تخلیق اور ان کے معاملات میں وہ کس کام میں شریک ہوئے؟ اگر تمہارے پاس کسی آسمانی کتاب کا کوئی ثبوت ہو یا کوئی علمی دلیل ہو تو اسے پیش کرو اگر تم اپنے کفر و شرک کے بارے میں سچے ہو۔ ظاہر بات ہے کہ ان کے پاس کسی آسمانی کتاب کا حوالہ اور کوئی عقلی اور علمی ثبوت نہیں۔ مگر پھر بھی ذات کبریا کے سوا دوسروں کے سامنے جھکتے اور انہیں پکارتے ہیں۔ ان کے باطل عقیدہ کی کلی کھولتے ہوئے یہ بات سمجھائی ہے کہ دین کی بنیاد کتاب اللہ، نبی کی سنت اور ٹھوس علمی ثبوت پر ہے۔ اس کے سوا کسی کی رائے دین کی تشریح میں معاون ہوسکتی ہے مگر دین کہلوانے کی حقدار نہیں ہوسکتی۔ جہاں تک کفار سے اس سوال کا تعلق ہے کہ جن کی یہ عبادت اور غلامی کرتے ہیں انہوں نے زمین و آسمان میں کیا پیدا کیا ہے تو ہر مشرک اور کافر اس کا اقرار کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ زمین و آسمان اور ہر چیز کو صرف اللہ تعالیٰ نے ہی پیدا کیا ہے۔