فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَيُدْخِلُهُمْ رَبُّهُمْ فِي رَحْمَتِهِ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْمُبِينُ
پس جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے عمل صالح کیا، ان کا رب انہیں اپنی رحمت (جنت) میں داخل کرے گا، یہی کھلی کامیابی ہے
فہم القرآن: (آیت 30 سے 31) ربط کلام : لوگوں کو ملنے والے اعمال ناموں کا نتیجہ۔ جو لگ سچے دل کے ساتھ ایمان لائے اور صالح اعمال کرتے رہے اللہ تعالیٰ انہیں اپنی رحمت میں داخل فرمائے گا۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے دامن میں لیے لیا اس کے لیے بہت بڑی کامیابی ہوگی اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا۔ اللہ تعالیٰ انہیں جھڑکنے کے انداز میں استفسار فرمائے گا۔ کیا میرے ارشاد تم تک نہیں پہنچے تھے؟ لیکن تم نے ان کے ساتھ تکبر کیا اور تم مجرم ٹھہرے۔ یقیناً قیامت کے دن مجرموں کو ان کے جرم کے مطابق سزا ہوگی اور کسی پرکسی قسم کی زیادتی نہیں ہوگی۔ ان کے مقابلے میں نیک لوگوں کو نہ صرف ان کے ایمان اور اعمال کی جزا دی جائے گی۔ بلکہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنی طرف سے بے انتہا اجر سے سرفراز فرمائے گا یہ سراسر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا تذکرہ کرتے ہوئے نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ رب کی رحمت کے بغیر کوئی شخص جنت میں نہیں جاسکتا۔ صحابہ نے آپ (ﷺ) سے استفسار کیا۔ کیا آپ بھی رب کریم کی رحمت کے بغیر جنت میں داخل نہ ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا میں بھی اپنے رب کی رحمت کے بغیر جنت میں نہیں جاسکتا۔ آپ کے فرمان کا مقصد یہ ہے کہ رب کریم کے کرم کے بغیر نہ کوئی ایمان لاسکتا ہے اور نہ ہی صالح اعمال کی توفیق مل سکتی ہے۔ ” اللہ“ ہی نیک اعمال قبول کرنے والا ہے اس لیے انسان جنت میں صرف رب کریم کی رحمت کے ساتھ ہی داخل ہوپائے گا۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) یَقُوْلُ لَنْ یُّدْخِلَ أَحَدًا عَمَلُہُ الْجَنَّۃَ قَالُوْا وَلَآ أَنْتَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ لَا وَلَآ أَنَا إِلَّا أَنْ یَّتَغَمَّدَنِیَ اللّٰہُ بِفَضْلٍ وَّرَحْمَۃٍ فَسَدِّدُوْا وَقَارِبُوْا وَلَا یَتَمَنَّیَنَّ أَحَدُکُمُ الْمَوْتَ إِمَّامُحْسِنًا فَلَعَلَّہٗ أَنْ یَّزْدَادَ خَیْرًا وَإِمَّا مُسِیْئًا فَلَعَلَّہٗ أَنْ یَّسْتَعْتِبَ) [ رواہ البخاری : کتاب المرضٰی، باب تمنی المریض الموت] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (ﷺ) سے سنا آپ فرماتے تھے کہ کسی کو اس کے عمل جنت میں داخل نہیں کریں گے۔ صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے نبی! آپ بھی آپ نے فرمایا ہاں ! میں بھی نہیں۔ سواۓ اس کے کہ اللہ اپنے فضل و رحمت سے مجھے نوازے۔ اس لیے میانہ روی اختیار کرو اور قریب قریب چلو۔ تم میں کوئی شخص موت کی تمنا نہ کرے کیونکہ نیک ہوگا تو اس کے اعمال میں اضافہ ہوجائے گا۔ وہ برا ہے تو ممکن ہے وہ توبہ کرلے۔“ مسائل: 1۔ سچا ایمان اور صالح اعمال رکھنے والے اپنے رب کی رحمت کی وجہ سے جنت میں داخل ہوں گے۔ 2۔ جنت میں داخل ہونا بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ 3۔ جن لوگوں نے کفر اختیار کیا وہ قیامت کے دن مجرموں کے کٹہرے میں کھڑے ہوں گے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے ارشادات کے ساتھ کفر کرنے کا بنیادی سبب تکبر ہی ہوا کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: نیک لوگوں کی جزا اور برے لوگوں کی سزا : 1۔ جس نے ذرہ برابر نیکی کی وہ اس کو دیکھ لے گا۔ جس نے ذرہ برابر برائی کی وہ بھی اس کو دیکھ لے گا۔ (الزلزال : 7تا8) 2۔ جو ایک نیکی کرے گا اس کو دس نیکیوں کا بدلہ ملے گا جو برائی کرے گا اس کی سزا صرف اتنی ہی ہوگی۔ (الانعام :160) 3۔ برائی کا بدلہ اس کی مثل ہی ہوگا۔ (القصص :84) 4۔ برائیوں میں مرنے والے کے لیے جہنم ہے۔ (البقرۃ:71) 5۔ جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی اس کی سزا جہنم ہے۔ (النازعات :37) 6۔ اللہ کی رحمت نیک لوگوں کے قریب ہوا کرتی ہے۔ (الاعراف :56) 7۔ مصلحین کا اجر ضائع نہیں ہوتا۔ (الاعراف :170) 8۔ نیک عمل کرنے والے کا عمل برباد نہیں ہوگا۔ (الکہف :30) 9۔ نیکو کار کا اجر ضائع نہیں ہوتا۔ (التوبۃ:120)