قُل لِّلَّذِينَ آمَنُوا يَغْفِرُوا لِلَّذِينَ لَا يَرْجُونَ أَيَّامَ اللَّهِ لِيَجْزِيَ قَوْمًا بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ
اے میرے نبی ! آپ ایمان رکھنے والوں سے کہہ دیجیے کہ وہ ان لوگوں کو در گذر (٩) کریں جو اللہ کے عذاب کے دنوں کی امید نہیں رکھتے ہیں، تاکہ وہ ایک قوم کو ان کے کئے کا بدلہ دے
فہم القرآن: (آیت 14 سے 15) ربط کلام : جو شخص اپنے رب کی قدرتوں پر غوروفکر اور اس کی نعمتوں کا شکرادا کرتا ہے وہ ہر صورت اپنے رب پر ایمان لاتا ہے۔ ایمان لانے والوں کو خصوصی ہدایت کی گئی ہے۔ ایمان کی ابتدا ” لا الٰہ الا اللہ“ سے ہوتی ہے جس کا معنٰی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہی ضرورتیں پوری کرنے اور بگڑی بنانے والا ہے ہے۔ اس بات کا اقرار کرنے سے پہلے ہر معبود کی نفی کرنا فرض ہے۔ جو شخص اللہ کے سوا دوسرے معبودوں کی نفی نہیں کرتا اللہ تعالیٰ اس کا کلمہ قبول نہیں کرتا۔ کلمہ طیبہ میں پہلے معبودان باطلہ کی نفی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ جب ایماندار اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کی نفی کرتا ہے تو کافر اور مشرک کو یہ بات برداشت نہیں ہوتی۔ اس پرکافر اور مشرک موحّد کے خلاف ہر اقدام کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں اور مومن بندوں کو درگزر کرنے کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے نبی! ایمان والوں سے فرمائیں کہ ان لوگوں سے درگزر کریں جو برے اعمال کرنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کے ایام سے نہیں ڈرتے۔ انہیں یہ بھی ارشاد فرمائیں کہ جو ایمان لانے کے بعد صالح عمل کرے گا اس کا فائدہ اسی کو ہوگا اور جس نے ایمان لانے سے انکار کیا اور برے اعمال کرتارہا اس کا وبال اسی پر ہوگا۔ بالآخر تم سب نے اپنے رب کی طرف لوٹ کرجانا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کو اس کے عمل کے مطابق بدلہ دے گا۔ پہلی آیت میں ان لوگوں سے درگزر کرنے کا حکم دیا گیا ہے جو اللہ کے ایام کا خوف نہیں رکھتے۔ ایام کے بارے میں اہل علم کا اتفاق ہے کہ یہاں ایام سے مراد ایسے دن ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کسی قوم کی پکڑ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے جو لوگ بے پرواہ ہوتے ہیں وہ بات بات پرجنگ و جدال پر اتر آتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے الجھنے سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ اس سے تبلیغ کے کام میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ اس لیے نبی (ﷺ) کو حکم ہوا اور دوسرے مقام پر ایمانداروں کی یہ صفت بیان کی ہے۔ ﴿وَاِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّـٰهِ اِنَّه سَـمِيْـعٌ عَلِيْـمٌ﴾ ” اور اگر کبھی آپ کو شیطان ابھارے تو اللہ کی پناہ طلب کریں بے شک وہ سب کچھ سننے والا سب کچھ جاننے والاہے“ (الاعراف :200) ﴿وَمَا يُلَقَّاهَآ اِلَّا الَّـذِيْنَ صَبَـرُوْا وَمَا يُلَقَّاهَآ اِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِـيْمٍ﴾ یہ خوبی حاصل نہیں ہوتی مگر ان لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر ان لوگوں کو جو بڑے نصیبے والے ہیں۔“ (حم سجدہ :35) ” اہل کتاب کے اکثر لوگ چاہتے ہیں کہ حق واضح ہوجانے اور تمہارے ایمان لانے کے بعدوہ تمہیں اپنے حسد و بغض کی بناء پر ایمان سے ہٹا کر کافر بنا دیں۔ بس تم معاف کرو اور درگزر کرو۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا فیصلہ فرما دے یقیناً اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔“ (البقرۃ:109) ﴿وَعِبَادُ الرَّحْـمٰنِ الَّـذِيْنَ يَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا وَاِذَا خَاطَبَهُـمُ الْجَاهِلُوْنَ قَالُوْا سَلَامًا﴾ ” رحمان کے بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اگر ان سے جاہل جھگڑیں تو وہ ان کو سلام کہہ کر چل دیتے ہیں۔“ (الفرقان :63) مسائل: 1۔ جو لوگ اپنے رب کی پکڑ سے بے خوف ہوتے ہیں۔ ایمانداروں کو ان سے درگزر کرنا چاہیے۔ 2۔ جو ایماندار صالح عمل کرے گا وہ اس کی جزا پائے گا اور جو برے عمل کرے گا وہ اس کی سزا پائے گا۔ ہر کسی نے اپنے رب کی طرف لوٹ کرجانا ہے۔ تفسیربالقرآن : حق کا انکار کرنے والوں کے ساتھ مومنوں کا کیا رویہ ہونا چاہیے : 1۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا میں آپ لوگوں سے اور جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو ان سے کنارہ کش ہوتا ہوں۔ (مریم :48) 2۔ اے ایمان والو! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا دوست نہ بناؤ۔ (المائدۃ:51) 3۔ اے ایمان والو! اگر تمہارے آباء اسلام پر کفر کو ترجیح دیں تو اپنے آباء اور بھائیوں کو دوست نہ بناؤ۔ (التوبۃ:23) 4۔ اے ایمان والو! کفار کو مومنوں کے مقابلہ میں دوست نہ بناؤ۔ (النساء :144) 5۔ اے ایمان والو! جن لوگوں نے تمھارے دین کو کھیل تماشہ بنا رکھا ہے انہیں دوست نہ بناؤ۔ (المائدۃ:57) 6۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے معبودباطل کا انکار کیا اور ان سے براءت کا اظہار کیا۔ (الممتحنہ :4)