يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ إِذَا ضَرَبُوا فِي الْأَرْضِ أَوْ كَانُوا غُزًّى لَّوْ كَانُوا عِندَنَا مَا مَاتُوا وَمَا قُتِلُوا لِيَجْعَلَ اللَّهُ ذَٰلِكَ حَسْرَةً فِي قُلُوبِهِمْ ۗ وَاللَّهُ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
اے ایمان والو ! ان کی طرح نہ ہوجاؤ جنہوں نے کفر (108) کیا، اور اپنے بھائیوں کے بارے میں جب وہ سفر یا جہاد کے لیے نکلے (اور موت آگئی) کہا کہ اگر وہ ہمارے پاس ہوتے تو نہیں مرتے اور نہ قتل کیے جاتے، تاکہ اللہ اس خیال کو ان کے دلوں کی حسرت بنا دے، اور اللہ زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے، اور اللہ تمہارے اعمال کو دیکھ رہا ہے
فہم القرآن : ربط کلام : منافقین نے اپنے عزیزوں کی موت پر حسرت وافسوس کا اظہار کیا جس پر مسلمانوں کو سمجھایا گیا ہے کہ تمہیں منافقوں اور بزدلوں کی طرح اپنے جذبات کا اظہار نہیں کرنا چاہیے کیونکہ موت وحیات تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ اے صاحب ایمان لوگو! تمہاری سوچ اور زبان کفار جیسی نہیں ہونی چاہیے جنہوں نے اپنے رشتے داروں کو یہ کہا کہ اگر تم قتال کے لیے نہ نکلتے اور ہمارے ہاں ٹھہرے رہتے تو قتل ہونے سے بچ جاتے دراصل یہ لوگ اپنی حد سے بڑھ کر بات کرتے ہیں۔ کیونکہ موت و حیات کے فیصلے صرف اللہ کے اختیار میں ہیں۔ کسی نیک کی نیکی‘ برے کی برائی‘ دانش مند کی دانش مندی اور محتاط کی احتیاط موت کو ٹال سکتی ہے اور نہ ہی کسی کو اس کی موت کی جگہ سے ہٹا سکتی ہے۔ یہ تو کفار کی سوچ ہے کہ اگر ایسا ہوتا تو یوں ہوجاتا اور یوں ہوتا تو اس طرح ہوجاتا۔ ایسے لوگ زندگی بھر ایسی حسرتوں کا شکار رہتے ہیں کہ کاش وسائل ہوتے تو یہ اور وہ ہوجاتا حالانکہ ہوتا وہی ہے جو اللہ کو منظور ہوتا ہے۔ رسول اللہ (ﷺ) نے ایسی گفتگو اور سوچ سے منع فرمایا ہے : (عَنْ أبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) اَلْمُؤْمِنُ الْقَوِیُّ خَیْرٌ وَّاأحَبُّ إِلَی اللّٰہِ مِنَ الْمُؤْمِنِ الضَّعِیْفِ وَ فِیْ کُلٍّ خَیْرٌ إِحْرِصْ عَلٰی مَا یَنْفَعُکَ وَاسْتَعِنْ باللّٰہِ وَلَا تَعْجَزْ وَإِنْ أَصَابَکَ شَیْ ءٌ فَلَا تَقُلْ لَوْ أَنِّی فَعَلْتُ کَانَ کَذَا وَ کَذَا وَلٰکِنْ قُلْ قَدَّرَ اللّٰہُ وَمَا شَاءَ فَعَلَ فَإِنَّ لَوْ تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّیْطَانِ) [ رواہ مسلم : کتاب القدر، باب فی الأمربالقوۃ وترک العجز والإستعانۃ باللہ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں اللہ کے رسول (ﷺ) نے فرمایا ہے طاقتور مومن اللہ کے ہاں کمزور مومن سے بہتر اور پسندیدہ ہے تاہم بہتری اور خیر دونوں میں ہے۔ تجھے نفع بخش چیز کی طلب کرتے ہوئے اللہ سے مدد طلب کرنا چاہیے اور عاجز نہیں ہونا چاہیے۔ اگر کوئی تکلیف آئے تو یہ نہ کہنا چاہیے کہ اگر میں یہ کام کرتا تو ایسے ہوجاتا بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اللہ نے جو تقدیر میں لکھا اور جو چاہا کردیا۔ کیونکہ لفظ ” اگر سے شیطان اپنے کام کی ابتدا کرتا ہے۔“ رسول اللہ (ﷺ) کے فرمان کا مقصد یہ ہے کہ پریشانی کے موقعہ پر آدمی کے اگر مگر کہنے سے شیطان آدمی کا عقیدہ کمزور کرنے اور اسے گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔“ رسول اکرم (ﷺ) کی تعلیم : آپ نے بچوں کے ذہنوں میں بھی یہ بات پختہ کردی کہ جو فیصلہ اللہ تعالیٰ نے کر رکھا ہے وہ ہو کر رہنے والا ہوتا ہے۔ نہ وہ ٹل سکتا ہے اور نہ اسے کوئی روک سکتا ہے آپ نے عبداللہ بن عباس (رض) کو یہ عقیدہ سکھایا : (وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّۃَ لَوِ اجْتَمَعَتْ عَلٰی أَنْ یَنْفَعُوْکَ بِشَیْءٍ لَمْ یَنْفَعُوْکَ إِلَّا بِشَیْءٍ قَدْ کَتَبَہُ اللّٰہُ لَکَ وَلَوِ اجْتَمَعُوْا عَلٰی أَنْ یَّضُرُّوْکَ بِشَیْءٍ لَمْ یَضُرُّوْکَ إِلَّا بِشَیْءٍ قَدْ کَتَبَہُ اللّٰہُ عَلَیْکَ رُفِعَتِ الْأَقْلَامُ وَجَفَّتِ الصُّحُفُ) [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع] ” یقین رکھ کہ اگر پوری دنیا تجھے کچھ نفع دینے کے لیے جمع ہوجائے تو وہ اتنا ہی نفع دے سکتی ہے جتنا اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے لکھ رکھا ہے اور اگر وہ تجھے کچھ نقصان دینے پہ تل جائے تو تجھے اتنا ہی نقصان پہنچے گا جتنا تیری قسمت میں لکھا گیا ہے، قلمیں اٹھالی گئیں ہیں اور صحیفے خشک ہوگئے ہیں۔“ مسائل : 1۔ مسلمانوں کی سوچ اور گفتگو کفار جیسی نہیں ہونی چاہیے۔ 2۔ مسلمانوں کو جہاد سے پھسلانا یا ہٹانا کفریہ سوچ ہے۔ 3۔ موت اور زندگی اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کے اعمال کو دیکھ رہا ہے۔ تفسیر بالقرآن : حسرت زدہ لوگ : 1۔ اسلام کا انکار کرناحسرت کا سبب ہوگا۔ (الحاقۃ:50) 2۔ مشرکین قیامت کے دن حسرت کا اظہار کریں گے۔ (البقرۃ:167) 3۔ قیامت کے منکرین حسرت وافسوس کریں گے۔ (الانعام :31) 4۔ قیامت کے دن مجرم دنیا کی بری دوستی پر اظہار افسوس کریں گے۔ (الفرقان : 27تا29)