وَلَقَدْ نَجَّيْنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ مِنَ الْعَذَابِ الْمُهِينِ
اور ہم نے بنی اسرائیل کو رسوا کن عذاب سے نجات (١١) دے دی
فہم القرآن: (آیت 30 سے 33) ربط کلام : بنی اسرائیل کا اذیت ناک عذاب سے نجات پانا ہے۔ فرعون اور اس کے ساتھیوں کا غرق ہونا۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کو سمندر میں غرقاب کیا کیونکہ وہ بڑا ہی عالی اور غالی انسان تھا۔ دنیا میں بڑے بڑے باغی اور سرکش انسان گزرے ہیں مگر کسی نے رب الاعلیٰ ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ فرعون ایساغالی اور متکبر انسان تھا کہ اس نے رب الاعلیٰ ہونے کا دعویٰ کیا اور لوگوں کو جبراً اپنے سامنے جھکا یا کرتا تھا۔ وہ بنی اسرائیل کو اذیت ناک سزائیں دیتا تھا۔ اللہ تعالیٰ جنہیں بنی اسرائیل موسیٰ (علیہ السلام) کی بے مثال جدوجہد کے نتیجے میں نجات عطا فرمائی۔ جس کے بارے میں عذاب مھین کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں اور اسے جنت بڑی آزمائش قرا ردیا۔ اس ذلت ناک سزا کا تذکرہ قرآن مجید میں ان الفاظ کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ ﴿وَ اِذْ نَجَّیْنٰکُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ یَسُوْمْوْنَکُمْ سُوْٓءَ الْعَذَابِ یُذَبِّحُوْنَ اَبْنَآءَ کْمْ وَ یَسْتَحْیُوْنَ نِسَآءَ کُمْ وَفِیْ ذٰلِکُمْ بَلَآءٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ عَظِیْمٌ﴾[ البقرۃ:49] ” اور جب ہم نے تمہیں فرعونیوں سے نجات دی جو تمہیں بد ترین عذاب دیتے تھے۔ وہ تمہارے لڑکوں کو مار ڈالتے اور تمہاری لڑکیوں کو چھوڑ دیتے تھے اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑی آزمائش تھی۔“ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو اپنی نعمتوں کا احساس، آخرت کا خوف اور ان کے ماضی کے الم ناک دور کا حوالہ دیتے ہوئے سمجھایا ہے کہ آج تم کمزور اور بے خانماں مسلمانوں پر ظلم کررہے ہو تمہیں وہ وقت بھی یاد رکھنا چاہیے جب فرعون تمہارے جوانوں اور نونہالوں کو سر عام ذبح کرتا تھا اور تمہاری ماؤں اور بہو‘ بیٹیوں کو باقی رہنے دیتا تھا۔ قرآن مجید نے اسے بلائے عظیم قرار دے کر ان تمام مضمرات کی طرف اشارہ کیا ہے جو مظلوم اور غلام قوم کو پیش آیا کرتے ہیں۔ ظالم لوگ مغلوب اور مظلوم قوم کی بہو بیٹیوں کے ساتھ وہ سلوک روا رکھتے ہیں جس کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اے بنی اسرائیل ! اللہ تعالیٰ نے تم پر احسان عظیم کرتے ہوئے ان مظالم سے تمہیں نجات دلائی اور تمہاری آنکھوں کے سامنے تمہارے بد ترین دشمن کو ذلت کی موت دیتے ہوئے ہمیشہ کے لیے اسے نشان عبرت بنا دیا۔ اس سے دنیا میں تمہاری عظمت و سچائی اور بزرگی کی دھوم مچ گئی کہ بنی اسرئیل کے لیے دریا رک گیا اور ان کی آنکھوں کے سامنے بد ترین مغروروسفّاک، خدائی اور مشکل کشائی کا دعوی کرنے والا ڈبکیاں لیتے ہوئے دہائی دیتا رہا کہ لوگو! میں موسیٰ (علیہ السلام) اور اس کے خدا پر ایمان لاتا ہوں لیکن آواز آئی کہ تیرا ایمان ہرگز قبول نہیں ہوگا اب تجھے آئندہ نسلوں کے لیے نشان عبرت بنا دیا جائے گا۔[ یونس :91] مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ذلت آمیز سزاؤں سے نجات دی۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کو ذلت کی موت مارا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو پوری دنیا پر فضیلت اور عظمت عطا فرمائی۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ کے بنی اسرائیل پرانعامات : 1۔ اے بنی اسرائیل میری نعمتوں کو یاد کرو جو میں نے تم پر انعام فرمائیں۔ (البقرۃ:40) 2۔ بنی اسرائیل کو ساری دنیا پر فضیلت دی گئی۔ (البقرۃ:47) 3۔ بنی اسرائیل کے لیے سمندر کو پھاڑا گیا۔ ( البقرۃ:50) 4۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو آل فرعون سے نجات دی۔ (البقرۃ:49) 5۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے لیے بارہ چشمے جاری فرمائے۔ (الاعراف :160) 6۔ بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ نے بادلوں کا سایہ کیا اور من و سلویٰ نازل فرمایا۔ (البقرۃ:57) 7۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے لیے مقتول کو زندہ فرمایا۔ (البقرۃ:73) 8۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے ہزاروں لوگوں کو دوبارہ زندہ کیا۔ (البقرۃ:243) 9۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے کمزوروں کی مدد فرمائی۔ (القصص :5) 10۔ ہم نے بنی اسرائیل کوا ذیت ناک عذاب سے نجات دی۔ (الدخان :30)