وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ ۖ فَأَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ
اور اگر آپ ان سے پوچھیں گے کہ انہیں کس نے پیدا (٤١) کیا ہے، تو وہ کہیں گے، اللہ، پھر وہ کدھر بہکے جا رہے ہیں
فہم القرآن: (آیت 87 سے 89) ربط کلام : جو لوگ اللہ تعالیٰ کے سوا یا اس کے ساتھ کسی کو شریک بناتے ہیں ان سے سوال کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی توحید سمجھانے کے لیے بے شمار اسلوب اختیار فرمائے ہیں جن میں ایک اسلوب اور طریقہ یہ بھی اختیار کیا ہے کہ مشرکوں سے پوچھا جائے کہ خود ان کی ذات کو کس نے پیدا کیا ہے۔ اس سوال کا یہ بھی مفہوم ہے کہ جن کو تم پکارتے ہو ان کو کس نے پیدا کیا ہے۔ دونوں صورتوں میں ہر دور کے مشرک اور کافر یہی جواب دیتے ہیں اور دیتے رہیں گے کہ ہم سب کو صرف ایک ” اللہ“ نے پیدا کیا ہے۔ تو پھر اللہ تعالیٰ کے ساتھ یا اس کے سوا دوسروں کو پکارنے کا کیا جواز ہے ؟ جو لوگ حقیقت مان کر بھی سچا ایمان لانے اور توحید خالص کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ قسم ہے رسول کے اس فرمان کی کہ اے رب! یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔ اے نبی (ﷺ) ! بس ان سے درگزر کرو اور انہیں سلام کہہ دو اور یہ فرماؤ کہ عنقریب تمہیں سب کچھ معلوم ہوجائے گا۔ یہاں سلام کا لفظ سلامتی کی دعا کے طور پر نہیں بلکہ قطع تعلق کے لیے ہے۔ جس طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ سے مایوس ہو کر کہا تھا۔ ﴿سَلٰمٌ عَلَیْکَ﴾ [ مریم :47] ” تجھ پر سلامتی ہو۔“ یہی مومنوں کی صفت ہے۔ ﴿وَعِبَادُ الرَّحْـمٰنِ الَّـذِيْنَ يَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا وَاِذَا خَاطَبَهُـمُ الْجَاهِلُوْنَ قَالُوْا سَلَامًا﴾ ” الرحمان کے بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اگر جاہل ان سے جھگڑیں تو وہ ان کو سلام کہہ کر چل دیتے ہیں۔“ [ الفرقان :63] اللہ تعالیٰ نے یہاں رسول کے اس فرمان کی قسم کھائی ہے کہ ” اے میرے رب! یہ قوم ایمان لانے والی نہیں۔“ بالآخر ہر پیغمبر کی جدوجہد کے دوران ایک مرحلہ ایسا آتا ہے جب پیغمبر اپنی قوم کے ایمان لانے سے مایوس ہوجاتا ہے۔ ایسے مرحلہ میں نبی ہجرت کر جاتے تھے یا پھر قوم کے لیے بدعا کرتے تھے۔ سورۃ یوسف کی آیت 110میں اسی مایوسی کا ذکر کیا گیا ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے ایسے موقع پر اپنی قوم کے لیے بدعا کی تھی (نوح :27) جہاں تک سرور دوعالم کا معاملہ ہے۔ آپ (ﷺ) سے اس قسم کے الفاظ ثابت نہیں۔ ممکن ہے کہ ہجرت سے پہلے آپ (ﷺ) کے یہ جذبات ہوں جنہیں قرآن مجید نے اپنے الفاظ میں بیان کیا ہے۔ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہونا کبیرہ گناہ ہے۔ لیکن لوگوں کے رویہ سے مایوس ہونا گناہ نہیں۔ لوگوں کے رویہ سے مایوس ہو کر ہی انبیائے کرام (علیہ السلام) اپنے وطن سے ہجرت کیا کرتے تھے۔ مسائل: 1۔ ہر دور کا کافر اور مشرک اس بات کا اقرار کرتا ہے اور کرتا رہے گا کہ سب کو پیدا کرنے والا صرف ایک ” اللہ“ ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کو خالق، رازق، مالک اور بادشاہ ماننے کے باوجود مشرک صرف اس ایک کی عبادت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ 3۔ ہر نبی کی زندگی میں ایسا وقت ضرور آتا ہے جب اسے یقین ہوجاتا ہے کہ اس کی قوم کے لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔ 4۔ جن لوگوں کے ایمان لانے سے مبلغ مایوس ہوجائے ان سے جھگڑنے کی بجائے انہیں سلام کہنا ہی بہتر ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: مشرکین کا اعتراف : 1۔ مشرک سے سوال کیا جائے کہ آسمان و زمین سے رزق کون دیتا ہے کہتے ہیں ” اللہ“ ہی رزق دیتا ہے۔ (یونس :31) 2۔ مشرکین سے پوچھا جائے مخلوق کو پیدا کرنے والا کون ہے؟ جواب دیتے ہیں ” اللہ“ ہی پیدا کرنے والا ہے۔ (یونس :34) 3۔ اگر ان سے پوچھا جائے کہ زمین و آسمان کا خالق کون ہے؟ تو کہتے ہیں ” اللہ“ ہی خالق ہے۔ (الزمر :38) 4۔ مشرکوں سے پوچھاجائے سات آسمانوں اور عرش عظیم کا مالک کون؟ جواباً کہتے ہیں، اللہ ہی مالک ہے۔ (المومنون : 86۔87) 5۔ اگر ان سے پوچھا جائے کہ ہر چیز پرکس کی بادشاہت ہے ؟ جواب دیتے ہیں اللہ کی بادشاہی ہے۔ (المومنون : 88۔89) 6۔ یقیناً اگر تو ان سے پوچھے کہ کس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور سورج اور چاند کو مسخر کیا ؟ تو وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے، پوچھیں کہ پھر کہاں سے بہکائے جا رہے ہیں۔ (العنکبوت :61)