وَنَادَىٰ فِرْعَوْنُ فِي قَوْمِهِ قَالَ يَا قَوْمِ أَلَيْسَ لِي مُلْكُ مِصْرَ وَهَٰذِهِ الْأَنْهَارُ تَجْرِي مِن تَحْتِي ۖ أَفَلَا تُبْصِرُونَ
اور فرعون نے اپنی قوم کو پکار کر کہا (٢٢) اے میری قوم کے لوگو ! کیا مصر کی بادشاہت میری نہیں ہے، اور یہ نہریں جو میرے محلوں کے نیچے سے جاری ہیں، کیا تم دیکھتے نہیں ہو
فہم القرآن : (آیت 51 سے 53) ربط کلام : فرعون کا تکبر کی انتہا اور اس کی ہرزہ سرائی۔ فرعون اور اس کے ساتھی عذاب ٹل جانے کے بعد بار بار عہد شکنی کرتے اور موسیٰ (علیہ السلام) کو جادوگر کہہ کر بلاتے تھے۔ اس کے باوجود لوگ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بے مثال جدوجہد سے متاثر ہورہے تھے۔ متاثر ہونے والوں میں فرعون کا ایک قریبی رشتہ دار بھی تھا جو موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آیا۔ قریب تھا کہ جادو گروں کی طرح فرعون کے اور رشتہ دار بھی موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے کا اظہار کرتے۔ لیکن فرعون بڑا جابر اور شاطر انسان تھا۔ جونہی وہ لوگوں کو موسیٰ (علیہ السلام) سے متاثر ہوتے ہوئے محسوس کرتا تو وہ کوئی نہ کوئی نیا ہتھکنڈا اور پراپیگنڈہ شروع کردیتا۔ اس بار اس نے اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے ایک طرف تکبر کی انتہا کردی اور دوسری طرف اپنے کارناموں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اے میری محبوب عوام! تم خواہ مخواہ موسیٰ سے متاثر ہوئے جارہے ہو۔ دیکھو اور غور کرو! کہ ملک کا حکمران میں ہوں یا کوئی اور ؟ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ میں نے اپنے محل کے نیچے نہریں جاری کر رکھی ہیں۔ یعنی دیکھو کہ ملک کا دارالخلافہ کس قدر خوبصورت ہے اس کے ساتھ میرے اور موسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان تجزیہ کرو ! کیا میں بہتر ہوں یا وہ ذلیل شخص (نعوذ باللہ) جو صاف گفتگو بھی نہیں کرسکتا ؟ اس کی غربت اور کمپرسی کا یہ عالم ہے کہ نہ اس کے پاس سونے کے کنگن ہیں اور نہ ہی کوئی اس کے باڈی گارڈ۔ اس طرح اس نے عوام کو موسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف مشتعل کرنے کی کوشش کی۔ فرعون نے اپنے ملک کی ترقی بالخصوص شہروں میں ترسیلِ آب اور زراعت کے لیے آب پاشی کے نظام کا حوالہ دے کر قوم کو ورغلایا اور اپنے آپ کو ممتاز اور منفرد شخصیت کے طور پر پیش کرتے ہوئے ملک کے لیے ناگزیر قرار دیا۔ فرعون نے اپنے مقابلے میں موسیٰ (علیہ السلام) کو حقیر اور گونگا کہا اور ملک کی خوشحالی کا حوالہ دیتے ہوئے قوم کو اپنی کلائیوں کے سونے کے کنگن دکھلائے اور جاہ و حشمت کے اظہار کے لیے اپنے لشکر و سپاہ کا حوالہ دیا۔ یاد رہے کہ ہر ڈکٹیٹر اپنے بارے میں یہی سوچتا ہے اور تاثر دیا کرتا ہے یاد رہے اس قسم کے خیالات کا اظہار اہل مکہ بھی کیا کرتے تھے ان کا کہنا تھا کہ یہ تو غریب ہے نبی تو طائف یا مکہ کے فلاں سردار کو ہونا چاہیے تھا، جس لیے فرعون کی اس گفتگو کا قدرِتفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔ فرعون نے اس بات کا بھی اظہار کرتا تھا کہ اگر واقعی موسیٰ (علیہ السلام) اللہ کا رسول ہوتا تو اس کے ساتھ ہر وقت ملائکہ کا دستہ ہونا چاہیے تھا تاکہ وہ ہر موقع پر اس کی تائید اور مدد کرتے۔ ایسی ہی گفتگو اہل مکہ نبی محترم (ﷺ) کے بارے میں کیا کرتے تھے۔ اہل مکہ کو یہ کہہ کر سمجھایا گیا کہ تم ملائکہ کی آمد کا مطالبہ کرتے ہو۔ ﴿وَ قَالُوْا لَوْ لَآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ مَلَکٌ﴾ [ الانعام :8] ” اور انہوں نے کہا اس پر کوئی فرشتہ کیوں نہ اتارا گیا ؟“ زمانہ قدیم کے بادشاہ اور مالدار لوگ دولت کی نمائش کے لیے اپنی کلائیوں میں سونے کے کنگن پہنا کرتے تھے جس طرح آج کل کچھ لوگ کلائی میں کڑا، اور ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی پہنتے ہیں اور گلے میں سونے کی زنجیر لٹکاتے ہیں۔ کچھ لوگ سونے کی گھڑی پہننے پر فخر محسوس کرتے ہیں حالانکہ ہماری شریعت میں مردوں کو سونا پہننے سے منع کیا گیا ہے۔ (عَنْ عُقْبَۃَ بْنَ عَامِرٍ یُخْبِرُ عَنْ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) أَنَّہُ کَانَ یَمْنَعُ أَہْلَ الْحِلْیَۃِ وَالْحَرِیرِ وَیَقُولُ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ حِلْیَۃَ الْجَنَّۃِ وَحَرِیرَہَا فَلاَ تَلْبَسُوہَا فِی الدُّنْیَا) [ رواہ احمد : باب حدیث عقبۃ بن عامر الجھنی] ” حضرت عقبہ بن عامر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) انے زیور اور ریشم سے منع کرتے اور فرماتے تھے کہ اگر تم جنت میں زیور اور ریشم پہننا چاہتے ہو تودنیا میں نہ پہنا کرو!“ (عن عَبْد اللّٰہِ بْنَ عُکَیْمٍ قَالَ کُنَّا مَعَ حُذَیْفَۃَ (رض) بِالْمَدَآئِنِ فَاسْتَسْقٰی حُذَیْفَۃُ فَجَآ ءَ ہٗ دِہْقَانٌ بِشَرَابٍ فِیْٓ إِنَاءٍ مِّنْ فِضَّۃٍ فَرَمَاہُ بِہٖ وَقَالَ إِنِّیْٓ أُخْبِرُکُمْ أَنِّیْ قَدْ أَمَرْتُہٗ أَنْ لاَّ یَسْقِیَنِیْ فِیْہِ فَإِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) قَالَ لاَ تَشْرَبُوْا فِیْٓ إِنَآء الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ وَلاَ تَلْبَسُوا الدِّیْبَاجَ وَالْحَرِیْرَ فَإِنَّہٗ لَہُمْ فِی الدُّنْیَا وَہُوَ لَکُمْ فِی الآخِرَۃِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ) [ رواہ مسلم : کتاب اللباس والزینۃ، باب تَحْرِیمِ اسْتِعْمَالِ إِنَاءِ۔۔] ” حضرت عبداللہ بن عکیم (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم حذیفہ (رض) کے ساتھ مدائن میں تھے۔ حذیفہ (رض) نے پانی طلب کیا تو ایک کاشتکار چاندی کے برتن میں پانی لے کر حاضر ہوا حضرت حذیفہ نے اسے پھینک دیا اور فرمانے لگے کہ میں تمہیں یہ بات بتلاتے ہوئے حکم دیتاہوں کہ کوئی مجھے ایسے برتن میں نہ پلائے۔ کیونکہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا ہے کہ سونے اور چاندی کے برتنوں میں نہ پیو۔ زیور اور ریشمی لباس نہ پہنو (مرد) یقیناً یہ دنیا میں کافروں کے لیے ہے اور تمہارے لیے آخرت میں ہے۔“ مسائل : 1۔ فرعون نے اپنی قوم کو ملک کی ترقی کا حوالہ دے کر ورغلایا۔ 2۔ فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جیسے صاحب جمال اور جلیل القدر پیغمبر کو اپنے مقابلے میں ذلیل کہا۔ (نعوذباللہ) 3۔ فرعون نے اپنے مقابلے میں موسیٰ (علیہ السلام) کو گونگا قرار دیا۔ ٤۔ فرعون نے اپنی جاہ وحشمت کا مظاہرہ کیا۔ تفسیربالقرآن : نبی معظم (ﷺ) سے اہل مکہ کے مطالبات : 1۔ منکرین حق اس قرآن کے علاوہ قرآن یا اس میں تبدیلی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ (یونس :15) 2۔ کافر کہتے ہیں کہ نبی پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہیں نازل ہوئی۔ (یونس :20) 3۔ کفار کہتے ہیں کہ نبی پر اس کے رب کی طرف سے معجزات کیوں نازل نہیں ہوتے۔ (العنکبوت :50) 4۔ کفارنے نبی اکرم (ﷺ) سے کہا کہ ہم آپ پر ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ تو ہمارے لیے زمین سے چشمہ جاری کردے۔ (بنی اسرائیل :90) 5۔ کفار نے نبی معظم (ﷺ) سے مطالبہ کیا کہ تیرے لیے کھجور اور انگور کا ایک باغ ہو پھر اس کے درمیان نہریں جاری کر دے۔ (بنی اسرائیل :91) 6۔ آسمان کو ٹکڑے کرکے ہم پر گرا دے جیسا کہ تو نے دعویٰ کیا ہے۔ یا تو اللہ اور فرشتوں کو سامنے لے آئے۔ (بنی اسرائیل :92) 7۔ تیرے لیے سونے کا ایک گھر ہو یا تو آسمان میں چڑھ جائے اور ہم تیرے چڑھنے کا یقین نہیں کریں گے یہاں تک کہ تو ہم پر کتاب لے آئے جسے ہم پڑھیں۔ آپ فرما دیں میرا رب پاک ہے میں تو ایک پیغام پہنچانے والا بشر ہوں۔“ (93)