وَكَأَيِّن مِّن نَّبِيٍّ قَاتَلَ مَعَهُ رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ فَمَا وَهَنُوا لِمَا أَصَابَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَمَا ضَعُفُوا وَمَا اسْتَكَانُوا ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الصَّابِرِينَ
اور بہت سے انبیاء کے ساتھ اللہ والوں کی ایک بڑی تعداد نے جہاد (100) کیا تو اللہ کی راہ میں ان کو جو تکلیف پہنچی سا کی وجہ سے نہ ہار مان لی اور نہ کمزور پڑے، اور دشمن سے دب گئے، اور اللہ صبر کرنے والوں کو پسند کرتا ہے
فہم القرآن : (آیت 146 سے 148) ربط کلام : مسلمانوں کواُحد میں پہنچنے والی تکلیف پر تبصرہ جاری ہے جس میں تلقین کی جارہی ہے کہ حوصلہ ہارنے کے بجائے اپنے سے پہلے اللہ والوں کی تابناک تاریخ پر نظر رکھو۔ مصائب ومشکلات کے باوجود وہ اللہ کی راہ میں کس طرح ڈٹے رہے۔ اے اسلام کے مجاہدو‘ بدر کے غازیو اور محمد عربی (ﷺ) کے ساتھیو! کیا تم ایک ہی معرکہ میں عارضی شکست کھانے کے بعد کم ہمتی اور دل چھوٹے کیے بیٹھے ہو۔ ذرا تاریخ کے دریچوں میں جھانک کر دیکھو کہ کتنے ہی نبی اور ان کے ساتھ رب والے اللہ کے راستے میں جان توڑ کر لڑے۔ ان کے بچے یتیم ہوئے‘ عورتیں بیوہ ہوئیں‘ گھر بار لٹ گئے، انہیں زخم پر زخم اور صدمہ پر صدمے برداشت کرنے پڑے۔ وہ آگ کے انگاروں میں جھونکے گئے، ان کی چمڑیاں ادھیڑ دی گئیں‘ ان پر مصیبتوں اور پریشانیوں کی آندھیاں چلیں‘ مصائب کے پہاڑ ٹوٹے‘ صدموں اور زخموں سے چور چور ہوئے اس کے باوجود وہ پوری استقامت کے ساتھ بہادروں اور جوانمردوں کی طرح میدان کارزار میں سینہ سپر رہے۔ وہ دشمن کے مقابلے میں نہ بزدل ہوئے اور نہ ہی کم ہمت۔ ﴿اَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَأْتِکُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِکُمْ مَّسَّتْہُمُ الْبَأْسَآءُ وَالضَّرَّآءُ وَزُلْزِلُوْا حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ أَلَاإِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ﴾ [ البقرۃ:214] ” تم سمجھتے ہو کہ جنت میں یوں ہی داخل ہوجاؤ گے ؟ حالانکہ ابھی تم پر ان لوگوں جیسی حالت نہیں آئی جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں۔ وہ سختیوں اور بدحالیوں سے دو چار ہوئے اور انہیں جھنجھوڑ دیا گیا یہاں تک کہ رسول اور جو لوگ ان پر ایمان لائے تھے پکار اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ سنو! اللہ کی مدد قریب ہی ہے۔“ یقین جانو کہ اللہ تعالیٰ دین پر مستقل مزاج رہنے اور پریشانیوں میں صبر کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ اللہ کے بندے اپنی محنتوں اور قربانیوں پر اترانے کی بجائے نہایت ہی عاجزی اور سرافگندگی کے ساتھ اپنے رب کے حضور اپنی کوتاہیوں‘ لغزشوں اور اطاعت وجہاد میں کمی وبیشی کی معافی طلب کرتے ہوئے کفار کے مقابلہ میں استقامت اور اللہ تعالیٰ سے نصرت و حمایت طلب کیا کرتے تھے۔ جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے ان کو دنیا میں عزت و عظمت عطا فرمائی اور دین کی خدمت کی توفیق بخشی۔ یہی لوگ آخرت میں بے پناہ اجر و ثواب کے مستحق ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ یہاں ﴿فِیْ اَمْرِنَا﴾ (ہمارا کام) کے الفاظ سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ والے دین کی خدمت اور جہاد فی سبیل اللہ کو کسی پر احسان کے طور پر نہیں بلکہ اپنا فرض سمجھ کر ادا کیا کرتے ہیں۔ مسائل : 1۔ بہت سے انبیاء کے ساتھ کثیر تعداد میں نیک لوگ جہاد کرتے رہے۔ 2۔ انہوں نے جہاد فی سبیل اللہ میں نہ ہمت ہاری اور نہ دب کر رہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ حوصلہ مند لوگوں کے ساتھ محبت کرتا ہے۔ 4۔ اللہ کے بندے اللہ تعالیٰ سے ثابت قدمی کے لیے دعا کرتے ہیں۔ 5۔ اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اجر عطا فرماتا ہے۔ 6۔ اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : انبیاء (علیہ السلام) اور ان کے مجاہد ساتھی : 1۔ عیسیٰ (علیہ السلام) اور حواریوں کی جانثاری۔ (الصف :14) 2۔ جالوت وطالوت کا معرکہ۔ (البقرۃ:249) 3۔ نبی کریم (ﷺ) اور آپ کے صحابہ کا جہاد۔ (الفتح :29) 4۔ مجاہدین ہی بلند وبالا ہوں گے۔ (النساء :95)