أَفَأَنتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ أَوْ تَهْدِي الْعُمْيَ وَمَن كَانَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
اے میرے نبی ! کیا آپ بہروں کو سنا (١٧) سکیں گے، یا اندھوں کو اور ان لوگوں کے جو کھلی گمراہی میں ہیں، راہ دکھا سکیں گے
فہم القرآن : (آیت 40 سے 42) ربط کلام : جس شخص پر شیطان مسلّط کردیا جائے وہ برائی کو اچھائی سمجھنے کی وجہ سے اندھا اور بہرا ہوجاتا ہے۔ یہ حقیقت بڑی واضح ہے کہ جو شخص برائی کو اچھائی سمجھ کر کرتا ہے اسے جس طرح بھی سمجھایا جائے وہ نہ صرف اچھی بات کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہوتا بلکہ اسے سننا بھی گوارا نہیں کرتا۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ دل کے اندھے پن کی وجہ سے وہ اچھی بات پر غور کرنا اور اسے توجہ کے ساتھ سننا اپنے لیے بوجھ سمجھتا ہے۔ یہی صورت حال اہل مکہ اور اہل کتاب کی غالب اکثریت کی تھی۔ اہل مکہ دین ابراہیم (علیہ السلام) کے نام پر شرک و بدعات کرتے اور اہل کتاب اپنے آپ کو اہل حق سمجھتے تھے۔ ان لوگوں کو جب بھی سمجھایا جاتا تو ان کارد عمل اندھے اور بہرے لوگوں جیسا ہوتا۔ اس پر نبی کریم (ﷺ) کو ارشاد ہوا کہ کیا آپ بہرے شخص کو سنا سکتے ہیں اور اندھے کو راستہ دکھا سکتے ہیں اور اس شخص کو ہدایت دے سکتے ہیں جو پوری طرح گمراہ ہوچکا ہے ؟ گمراہ شخص کی صورت حال بیان کرنے کے بعد آپ (ﷺ) کو ارشاد ہوا کہ اگر ہم آپ کو فوت کرلیں تو ان سے ضرور بدلہ لیں گے یا آپ کی زندگی میں وہ کر دکھائیں گے جس کا ان کے ساتھ ہم وعدہ کرتے تھے۔ ہم ان سے انتقام لینے پر پوری طرح قدرت رکھتے ہیں۔ اہل مکہ آپ (ﷺ) سے باربار مطالبہ کرتے کہ جس عذاب سے ہمیں ڈرایا جاتا ہے وہ اب تک کیوں نازل نہیں ہوا؟ اس کا جواب اس موقع پریوں دیا گیا کہ ہم چاہیں تو آپ کی موت کے بعدان سے بدلہ لیں اور اگر چاہیں تو آپ کی زندگی میں انہیں عذاب میں مبتلا کریں گے۔ دونوں صورتوں میں ہمارے لیے کوئی مشکل نہیں کیونکہ ہم ان پر ہر اعتبار سے اقتدار اور اختیار رکھتے ہیں۔ ہدایت کے لیے لازم ہے کہ انسان عقل وفکر سے کام لے : ﴿اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِمَنْ کَانَ لَہٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَی السَّمْعَ وَہُوَ شَہِیْدٌ﴾ [ قٓ:37] ” جو شخص دل سے اس کی طرف متوجہ ہو کر اسے سنتا ہے اس کے لیے اس میں نصیحت ہے۔“ ﴿اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَتَکُوْنَ لَھُمْ قُلُوْبٌ یَّعْقِلُوْنَ بِھَآ اَوْ اٰذَانٌ یَّسْمَعُوْنَ بِھَا فَاِنَّھَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَ لٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ﴾ [ الحج :46] ” کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ ان کے دل سمجھنے والے یا ان کے کان سننے والے ہوتے؟ حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر سینوں میں دل اندھے ہوجاتے ہیں۔“ مسائل : 1۔ نبی اکرم (ﷺ) بھی بہرے کو سنا اور اندھے کو راستہ نہیں دکھا سکتے تھے۔ 2۔ یہاں بہرے اور اندھے سے پہلی مراد سچائی سننے سے بہرا ہونا اور ہدایت پانے سے اندھا ہونا ہے۔ 3۔ جو شخص برائی کو اچھائی سمجھتا ہے وہ گمراہ ہوچکا ہوتا ہے۔ 4۔ موت نبی اکرم (ﷺ) کا بھی مقدر تھی اس لیے آپ وفات پاچکے ہیں۔ 5۔ اللہ تعالیٰ نے کفار کو عذاب دینے کے لیے آپ (ﷺ) سے جو وعدہ فرمایا اسے آپ کی زندگی میں ہی پورا کردیا۔ 6۔ مشرک اور کافر کو اس کی موت کے بعد بھی سخت عذاب ہوگا۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے قادر مطلق ہے : 1۔ اللہ تعالیٰ آسمانوں وزمین کی ہر چیز کو جانتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (آل عمراٰن :29) 2۔ تم جہاں کہیں بھی ہوگے اللہ تعالیٰ تمہیں قیامت کے دن جمع فرمائیگا وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (البقرۃ:148) 3۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہے عذاب دے جسے چاہے معاف کردے وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (البقرۃ:284) 4۔ اللہ تعالیٰ تمہارا خیر خواہ اور ذمہ دار ہے اور وہی مردوں کو زندہ کرے گا اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (الشورٰی :9) 5۔ اللہ تعالیٰ ہی مردوں کو زندہ کرے گا اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ ( الروم :50) 6۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے (البقرۃ:20)