وَجَعَلُوا لَهُ مِنْ عِبَادِهِ جُزْءًا ۚ إِنَّ الْإِنسَانَ لَكَفُورٌ مُّبِينٌ
اور کافروں نے اللہ کے لئے اس کے بندوق میں سے بعض کو اس کی اولاد (٦) ٹھہرایا، بے شک آدمی بڑا کھلاناشکر گذار ہے
فہم القرآن : ربط کلام : ” اللہ“ کی توحید کا اقرار کرنے کے باوجود مشرک دوسروں کو اللہ تعالیٰ کا شریک بناتا ہے۔ یہ اس کی واضح طور پر ناشکری کی دلیل ہے۔ اس جاری خطاب میں اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے مشرکین کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا کہ اگر ان سے پوچھا جائے کہ زمین و آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے ؟ تو ان کا جواب ہوتا ہے اور ہوگا کہ زمین و آسمانوں کو صرف ایک ” اللہ“ نے پیدا کیا ہے۔ اس کے بعد اپنی آٹھ قدرتوں اور نعمتوں کا ذکر فرمایا جس سے تمام انسان مستفید ہوتے ہیں۔ مشرکین اللہ تعالیٰ کی خالقیّت کا اعتراف کرنے اور اس کی نعمتوں سے مستفید ہونے کے باوجود ” اللہ“ کے بندوں میں سے کچھ بندوں کو اس کا حصہ بناتے ہیں۔ جو مشرک کفر اور اس کی ناشکری کی واضح نشانی ہے۔ قوم نوح (علیہ السلام) نے پانچ فوت شدگان کو اللہ تعالیٰ کا جز بنایا۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم نے اپنے بادشاہ کو رب تسلیم کیا۔ فرعون نے اپنے آپ کو ” رب الاعلیٰ“ کے طور پر منوایا۔ یہودیوں نے عزیر (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا قرار دیا۔ عسائیوں نے عیسیٰ ( علیہ السلام) اور ان کی والدہ مریم (علیہ السلام) کو رب کا جز بنایا۔ امت مسلمہ اس حد تک گراوٹ کا شکار ہوئی کہ ایک فرقہ پنچتن پاک کی محبت میں شرک کا ارتکاب کر رہا ہے۔ امت مسلمہ کی کثیر تعداد نے نبی (ﷺ) کو ” نور من نور اللہ“ کے طور پر متعارف کروایا اور یارسول اللہ کہہ کر آپ سے مدد مانگتے ہیں۔ کسی کو داتا گنج بخش کہا، کسی کو دستگیر کے لقب سے یاد کیا۔ کسی کو گنج بخش کے طور پر اور کسی کو امام بری، میری قسمت کردے ہری بھری کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ کسی کو عزت کا مالک سمجھتے ہوئے اس طرح پکارا جاتا ہے کہ شہباز قلندرمیری پت رکھنا۔ کسی کو لجپال کہا جاتا ہے نہ معلوم مشرکین نے کس کس کو کیا کیا اختیارات سونپ رکھے ہیں۔ یہاں شرک کو پرلے درجے کی ناشکری قراردیا گیا ہے۔ شرک کرنے والا اس لیے ناشکرا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی عزت و عظمت کی خاطر اسے صرف اپنے سامنے جھکنے اور دردر کی ٹکروں سے بچنے کا حکم دیا۔ لیکن مشرک عقیدہ توحید پر راضی اور شکرگزارہونے کی بجائے دردر کی ٹھوکروں کو اختیار کرتا ہے۔ اس سے بڑھ کر انسان کی ناشکری کیا ہوسکتی ہے ؟ اسی حالت کے بارے میں ارشاد فرمایا۔ ” اے میرے قید خانے کے ساتھیو! کیا متفرق کئی ایک پروردگار بہتر ہیں؟ یا ایک اللہ زبردست طاقتور؟ اس کے سوا تم جن کی پوجا پاٹ کر رہے ہو وه سب نام ہی نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے خود ہی گھڑ لئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی، فرمانروائی صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ہے، اس کا فرمان ہے کہ تم سب سوائے اس کے کسی اور کی عبادت نہ کرو، یہی دین درست ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے. “ [ یوسف :39، 40]