وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ خَلَقَهُنَّ الْعَزِيزُ الْعَلِيمُ
اور اگر آپ ان سے پوچھیں گے کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا (٤) کیا ہے، تو وہ یہی کہیں گے کہ انہیں اس اللہ نے پیدا کیا ہے جو زبردست، بڑا جاننے والاہے
فہم القرآن : (آیت 9 سے 10) ربط کلام : انبیائے کرام (علیہ السلام) کے ساتھ ان کی اقوام کا بنیادی اختلاف اللہ کی توحید تھا اور یہی اختلاف اہل مکہ کو نبی (ﷺ) کے ساتھ تھا۔ حالانکہ وہ مانتے تھے کہ کائنات کا خالق اور مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اہل مکہ کا عقیدہ تھا کہ زمین و آسمانوں کو صرف اللہ تعالیٰ نے ہی پیدا کیا ہے۔ مکہ والے یہ بھی اقرار کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ جو چاہے کرسکتا ہے اور وہ کائنات کے ذرہ ذرہ کو جانتا اور اس کا خالق اور مالک ہے۔ جب بھی ان سے یہ سوال کیا جاتا تو وہ ان باتوں کا اقرار اور اظہار کرتے تھے۔ اس لیے انہیں فرمایا گیا ہے کہ جس اللہ نے زمین و آسمانوں کو پیدا کیا ہے اسی نے تمہارے لیے زمین میں راستے بنائے ہیں۔ عربی زبان میں مھد اس جھولے کو کہا جاتا ہے جس میں بچے کو سلایا جاتا ہے۔ دوسرے مقام پر زمین کو فرش قرار دیا ہے مگر یہاں اس کے لیے گہوارے کا لفظ استعمال فرمایا ہے یعنی جس طرح ایک بچہ پنگھوڑے میں آرام سے لیٹا ہوتا ہے، ایسے ہی تمہارے لیے اس عظیم الشان کُرّے کو پرسکون ٹھکانہ بنا دیا جو فضا میں معلق ہے، جو ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اپنے محور پر گھوم رہا ہے۔ جو 66600 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے رواں دواں ہے جس کے پیٹ میں وہ آگ بھری ہے کہ پتھروں کو پگھلا دیتی ہے اور آتش فشانوں کی شکل میں لاوا اگل کر کبھی کبھی تمہیں بھی اپنی شان دکھا دیتی ہے۔ مگر اسکے باوجود تمہارے خالق نے اسے اتنا پرسکون بنا دیا ہے کہ تم آرام سے اس پر سوتے ہو اور تمہیں ذرا جھٹکا تک نہیں لگتا۔ تم اس پر رہتے ہو اور تمہیں یہ محسوس تک نہیں ہوتا کہ یہ کُرّہ مُعلّق ہے اور تم اس پر سر کے بل لٹکے ہوئے ہو۔ تم اطمینان سے اس پر چلتے پھرتے ہو اور تمہیں یہ خیال تک نہیں آتا کہ تم بندوق کی گولی سے بھی زیادہ تیز رفتار گاڑی پر سوار ہو۔ بے تکلف اسے کھودتے ہو، اس کا سینہ چیرتے ہو طرح طرح سے اس کے پیٹ سے اپنا رزق اس سے وصول کرتے ہو، حالانکہ اس کی ایک معمولی سے جھرجھری کبھی زلزلے کی شکل میں آکر تمہیں خبردے دیتی ہے کہ یہ کس بلا کا خوفناک دیو ہے جسے اللہ نے تمہارے لیے مسخر کر رکھا ہے۔ (تفہیم القرآن : جلد4) جہاں تک زمین میں راستوں کا تعلق ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ عوام اور حکومتوں نے راستے بنائے تاکہ آمدروفت اور نقل وحمل آسان سے آسان تر ہوجائے۔ لیکن اگر راستوں کی تاریخ پر غور کیا جائے تو ہر علاقہ میں قدرت کی طرف سے ایسے راستے اور نشانات ضرور پائے جاتے ہیں جن کی مدد سے سڑکیں اور نئے راستے بنائے جاتے ہیں۔ پہاڑی علاقوں میں یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دونوں پہاڑوں کی ساخت اس طرح بنا دی ہے کہ ان کے درمیان راستے بنا دئیے ہیں۔ جن کو ہزاروں سالوں سے انسان راستوں کے طور پر استعمال کررہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ اگر پوری زمین چٹیل میدان ہوتی تو ابتدائی طور پر انسان کو راستے متعیّن کرنے میں مشکل ہوتی۔ اب بھی صحراؤں اور ریگستانوں میں جو راستے بنائے جاتے ہیں وہ بھی کسی نہ کسی نشان کو سامنے رکھ کر بنائے جاتے ہیں۔ جہاں زمین کے نشان نظروں سے دور ہوتے ہیں وہاں ستاروں کی مدد سے راستے متعین کیے جاتے ہیں۔ آج ایسے آلات ایجاد ہوچکے ہیں جن سے دن کے وقت بھی ستارے نظر آتے ہیں اور فاصلے قریب دکھائی دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ سہولت اس لیے عطا فرمائی ہے تاکہ اسے ایک علاقہ سے دوسرے علاقے تک پہنچنے میں آسانی ہو۔ اس کے لیے ہدایت کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس میں یہ اشارہ موجود ہے کہ جس طرح منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے تم صحیح راستوں کا انتخاب کرتے ہو اسی طرح ہی جنّت میں داخلے کے لیے تمہیں اللہ تعالیٰ کے متعین کردہ راستوں کو اختیار کرنا چاہیے۔ جس کا بنیادی سنگ میل عقیدہ توحید اور اس کے تقاضے پورے کرنا ہے۔ مسائل : 1۔ اہل مکہ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ زمین و آسمانوں کو اللہ تعالیٰ نے ہی پیدا کیا ہے۔ 2۔ اہل مکہ کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ ہر کسی پر غالب اور سب کچھ جانتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے زمین پر بسنے والوں کی سہولت کے لیے زمین کو بچھونا بنا دیا ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ رکھنے اور نقل و حمل کے لیے زمین میں راستے بنادیئے ہیں۔ تفسیر بالقرآن : زمین کے بارے میں قرآن مجید کے ارشادات : 1۔ اللہ تعالیٰ نے بغیر نمونے کے زمین و آسمان بنائے۔ (البقرۃ :117) 2۔ اس نے آسمان و زمین کو برابر کیا۔ (ا لبقرۃ:29) 3۔ آسمان کو چھت اور زمین کو فرش بنایا۔ (البقرۃ :22) (الاعراف :54) 4۔ (البقرۃ:29) (النمل :61) (النمل :60) (النمل :60) (یٰس :34) (الروم :8) (الزلزال :1)