فَإِنْ أَعْرَضُوا فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا ۖ إِنْ عَلَيْكَ إِلَّا الْبَلَاغُ ۗ وَإِنَّا إِذَا أَذَقْنَا الْإِنسَانَ مِنَّا رَحْمَةً فَرِحَ بِهَا ۖ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ فَإِنَّ الْإِنسَانَ كَفُورٌ
پس اگر وہ اعراض (٢٨) کرتے ہیں، تو اے میرے نبی ! ہم نے آپ کو ان کانگراں بنا کر نہیں بھیجا ہے، آپ کی ذمہ داری تو صرف تبلیغ ودعوت ہے، اور جب ہم انسان کو اپنی جانب سے مہربانی کا مزا چکھاتے ہیں، تو اس پر خوش ہوتا ہے، اور اگر اس کی بد اعمالیوں کی وجہ سے اس پر کوئی آفت آن پڑتی ہے، تو بے شک انسان بڑا نا شکر گذار بن جاتاہے
فہم القرآن : ربط کلام : قیامت کے دن مجرموں کے بچ نکلنے کی کوئی صورت نہیں ہوگی۔ اس کے باوجود یہ لوگ حق بات سے اعراض ہی کیے جارہے ہیں۔ آپ (ﷺ) کا کام صرف لوگوں تک حق بات کا ابلاغ کرنا ہے۔ لہٰذا یہ کام آپ کو کرتے رہنا چاہیے۔ نبی (ﷺ) پوری محنت اور اخلاص کے ساتھ شب وروز لوگوں کو سمجھا رہے تھے کہ اے لوگو! قیامت کا دن آنے سے پہلے اپنے آپ کو سدھار لو! قیامت کے دن کوئی اپنے آپ اور کسی دوسرے کو نہیں بچا سکے گا۔ لیکن کفار اور مشرکین کی حالت یہ تھی کہ وہ حق قبول کرنے کی بجائے آپ (ﷺ) کی مخالفت میں روز بروز آگے ہی بڑھتے جارہے تھے۔ جس پر نبی کریم (ﷺ) دل آزردہ ہوجاتے اور اللہ تعالیٰ کے حضور رو رو کر دعائیں کرتے۔ قریب تھا کہ آپ (ﷺ) کو کوئی عارضہ لاحق ہوجاتا۔ اس صورت حال میں آپ کو تسلی دینے کے لیے یہ ارشاد ہوا کہ کیا آپ اپنے آپ کو اس لیے بیمار کرلیں گے کہ یہ لوگ حق بات قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ (الشعراء :3) آپ کو یہ کہہ کر بھی ڈھارس دی گئی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کو نصیحت کرنے کے لیے بھیجا ہے۔ اس نے آپ کو لوگوں پر داروغہ بنا کر نہیں بھیجا۔ اس لیے آپ کا کام نصیحت کرنا ہے۔ آپ نصیحت کرتے جائیں۔ (الغاشیۃ: 21، 22) آپ (ﷺ) کی تسلی کے لیے یہاں ارشادفرمایا کہ اگر یہ لوگ آپ سے اعراض کرنے پر تلے ہوئے ہیں تو آپ کو ایک حد سے زیادہ فکرمند نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ہم نے آپ کو ان پر چوکیدار نہیں بنایا۔ آپ کا کام صرف حق بات کی دعوت دینا ہے۔ لہٰذا آپ ان کو دعوت دیتے جائیں اور اس کا نتیجہ اپنے رب کے حوالے کریں۔ لوگوں کی حالت یہ ہے کہ جب ہم ان کو اپنی رحمت سے نوازتے ہیں تو یہ اس کے ساتھ خوش ہوجاتے ہے۔ اگر ہم ان کو ان کے اعمال کی سزا دیتے ہیں تو اپنے رب کی ناشکری کرنے پر اتر آتے ہیں۔ اس آیت کے آغاز میں مخاطب تو اہل مکہ ہیں۔ مگر نعمت اور سزا کا ذکر کرتے ہوئے ” الانسان“ کا لفظ لا کر پوری بنی نوع انسان کو مخاطب کیا گیا ہے۔ کیونکہ یہ دعوت اور آپ (ﷺ) کی بعثت صرف اہل مکہ کے لیے نہیں تھی۔ آپ کی دعوت تو رہتی دنیا تک تمام انسانوں کے لیے ہے۔ جس بنا پر ہر داعی کو یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ وہ اپنے مخاطب کی فطرت کا خیال رکھتے ہوئے دعوت کا کام جاری رکھے۔ انسان کا یہ مزاج ہے کہ اپنے پسند کی بات پر خوش ہوتا ہے اور ناپسند پر ناراض ہوتا ہے۔ یہی رویہ اس کا اپنے رب کے بارے میں ہوتا ہے کبھی اس پر خوش ہوتا ہے اور کبھی ناراض ہوجاتا ہے۔ اس میں داعی کو یہ بھی سمجھایا جارہا ہے کہ لوگوں کی خوشی اور ناراضگی کی پروا کیے بغیر اسے حق کا ابلاغ کرتے رہنا چاہیے۔ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (ﷺ) کو لوگوں پر چوکیدار نہیں بنایا تھا۔ 2۔ نبی (ﷺ) کا کام حق بات کا ابلاغ کرنا تھا جسے آپ (ﷺ) نے کامل اور اکمل طریقے کے ساتھ سرانجام دیا۔ 3۔ انسان کی حالت یہ ہے کہ اسے کچھ ملے تو خوش ہوجاتا ہے۔ اگر اسے تکلیف پہنچے تو وہ اپنے رب کا بھی ناشکرا بن جاتا ہے۔ تفسیربالقرآن : نبی (ﷺ) کا کام حق بات پہچانا تھا منوانا نہیں : 1۔ آپ (ﷺ) تو ڈرانے والے ہیں اور اللہ ہر چیز پر کارساز ہے۔ (ہود :12) 2۔ آپ کا کام تبلیغ کرنا ہے اور حساب لیناہمارا کام ہے۔ (الرعد :40) 3۔ آپ کو ان پر نگران نہیں بنایا گیا آپ کا کام تبلیغ کرنا ہے۔ (الشوریٰ:48) 4۔ (پیغمبروں نے کہا) ہمارے ذمہ دین کی تبلیغ کرنا ہے۔ (یٰس :17) 5۔ آپ نصیحت کریں آپ کا کام بس نصیحت کرنا ہے، آپ کو چوکیدار نہیں بنایا گیا۔ (الغاشیۃ: 21، 22) 6۔ رسولوں کا کام صرف تبلیغ کرنا ہے۔ (النحل :35) 7۔ نہیں ہے رسول پر مگر واضح طور پر پیغام پہنچانا۔ (النور :54)