وَمَن يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِن وَلِيٍّ مِّن بَعْدِهِ ۗ وَتَرَى الظَّالِمِينَ لَمَّا رَأَوُا الْعَذَابَ يَقُولُونَ هَلْ إِلَىٰ مَرَدٍّ مِّن سَبِيلٍ
اور جسے اللہ گمراہ (٢٦) کر دے، اس کا اس کے بعد کوئی دوست نہیں، اور جب ظالم لوگ عذاب کو دیکھ لیں گے، تو آپ انہیں کہتے ہوئے پائیں گے کہ کیا (دنیا میں) واپس جانے کی کوئی صورت ہے
فہم القرآن : (آیت 44 سے 46) ربط کلام : جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین پر فساد برپا کرتے ہیں درحقیقت وہ صحیح راستے سے گمراہ ہوجاتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ گمراہ کردے اس کی کوئی راہنمائی کرنے والا نہیں ہوتا۔ جسے اللہ تعالیٰ گمراہ کردے اس کا کوئی خیرخواہ اور دوست نہیں ہوگا۔ آپ (ﷺ) ظالموں کو دیکھیں گے کہ جب یہ جہنم کے عذاب کو دیکھیں گے تو آہ وزاریاں کرتے ہوئے کہیں گے کہ کیا جہنّم سے بچ نکلنے کا کوئی راستہ ہے۔ آپ انہیں دیکھیں گے کہ جب وہ جہنّم کے سامنے کھڑے کیے جائیں گے تو ذلّت کی وجہ سے اپنی نگا ہوں کو نیچے کیے ہوئے ترشی آنکھوں سے اسے دیکھ رہے ہوں گے اس وقت مومن کہیں گے۔ یقیناً یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آپ اور اپنے اہل وعیال کو آج کے دن کے بارے میں نقصان میں رکھا۔ آگاہ ہوجاؤ کہ ظالم ہمیشہ رہنے والے عذاب میں مبتلاہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا ان کا کوئی دوست اور خیر خواہ نہیں ہوگا۔ جو ان کی مدد کرسکے۔ حقیقت یہ ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ گمراہ کردے اس کے لیے ہدایت کا کوئی راستہ اور طریقہ باقی نہیں رہتا۔ فہم القرآن میں کئی مرتبہ اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی شخص کو گمراہ نہیں کرتا۔ اس کے گمراہ کرنے کا معنٰی یہ ہے کہ جو شخص اپنے لیے گمراہی کو پسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے کھلا چھوڑ دیتا ہے۔ گمراہی کو اپنی طرف منسوب کرنے کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ ہر شخص کو اللہ تعالیٰ سے ہدایت مانگتے ہوئے گمراہی سے بچنے کی توفیق بھی مانگنا چاہیے۔ کیونکہ ہدایت اور گمراہی اسی کے اختیار میں ہے۔ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ گمراہی میں کھلا چھوڑ دیتا ہے۔ قیامت کے دن ان کی حالت یہ گی کہ وہ ذلّت کے مارے اپنی نگاہوں کو نیچے کیے ہوئے جہنّم کو ترشی نظروں کے ساتھ دیکھ رہے ہوں گے۔ جس طرح مجرم سزا کے وقت دیکھتا ہے اس حالت میں فریاد کریں گے کہ کاش! جہنّم سے بچ نکلنے کا کوئی راستہ نکل آئے۔ جنہیں دنیا میں اپنا نجات دہندہ سمجھتے تھے ان میں سے کوئی بھی انہیں بچانے والا نہیں ہوگا۔ جن لوگوں نے اپنے آپ اور اپنے اہل وعیال کو گمراہ کیا انہیں ہمیشہ رہنے والے عذاب میں داخل کیا جائے گا۔ یادرہے کہ برے سے برا شخص بھی اپنی اولاد کے نقصان کے لیے نہیں سوچتا۔ مگر اس کے فکر و عمل سے متاثر ہو کر اس کی اولاد اس طرح ہی ہوجاتی ہے جس قسم کا اس نے ماحول دیا ہوتا ہے۔ اگر ماں باپ فکرو عمل کے اعتبار سے صالح لوگ ہیں تو غالب امکان ہے کہ ان کی اولاد بھی صالح ہوگی۔ بصورت دیگر جیسے ماں باپ ہوں گے ویسی ہی اولاد ہوگی۔ اسی بنا پر قیامت کے دن جنتی جہنمیوں کے بارے میں کہیں گے کہ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آپ اور اپنی اولاد کو ناقابل تلافی نقصان میں ڈال دیا ہے۔ یعنی یہ لوگ جہنم میں داخل ہوچکے ہیں۔ (عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) مَا مِنْ مَّوْلُوْدٍ اِلَّا یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ فَاَبَوَاہُ یُھَوِّدَانِہٖ اَوْ یُنَصِّرَانِہٖ اَوْ یُمَجِّسَانِہٖ کَمَا تُنْتَجُ الْبَھِیْمَۃُ بَھِیْمَۃً جَمْعَآءَ ھَلْ تُحِسُّوْنَ فِیْھَا مِنْ جَدْعَآءَ ثُمَّ یَقُوْلُ ﴿فِطْرَۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ذَالِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ﴾) [ رواہ البخاری : باب اذا اسلم الصبی فمات] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول محترم (ﷺ) نے فرمایا ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔ اس کے والدین اس کو یہودی، عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں جس طرح چارپائے اپنے بچے کو تام الخلقت جنم دیتے ہیں۔ کیا تم ان میں سے کسی بچے کو کان کٹا پاتے ہو؟ پھر آپ (ﷺ) نے یہ آیت تلاوت کی۔” اللہ کی فطرت ہے جس پر اللہ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے اللہ کی تخلیق میں تبدیلی نہیں ہے یہ بالکل سیدھا اور درست دین ہے۔“ ﴿یاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْا اَنفُسَکُمْ وَاَہْلِیکُمْ نَارًا وَّقُوْدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ عَلَیْہَا مَلاَئِکَۃٌ غلاَظٌ شِدَادٌ لاَ یَعْصُون اللّٰہَ مَا اَمَرَہُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ﴾ [ التحریم :6] اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے بچا لو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں اور جس پر تند خو اور سخت مزاج فرشتے مقرر ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں جو حکم کرتا ہے وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم ان کو دیا جاتا ہے اس کی تعمیل کرتے ہیں۔“ مسائل :1۔ قیامت کے دن جہنمی ذلّت کے مارے نگاہیں نیچے کیے ہوئے جہنّم کو دیکھیں گے۔ 2۔ جہنمی اس بات کی خواہش اور اظہار کریں گے کہ کاش ! یہاں سے بچ نکلنے کا کوئی راستہ مل جائے۔ 3۔ اہل ایمان جہنمیوں کو کہیں گے کہ تم نے اپنے آپ اور اپنے اہل و عیال کو بڑے نقصان میں مبتلا کردیا ہے۔ 4۔ جہنمی ہمیشہ اذیّت ناک عذاب میں مبتلا رہیں گے۔ 5۔ جہنمیوں کی کوئی خیر خواہی اور مدد نہیں کرسکے گا۔ تفسیربالقرآن :اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی کسی کی مدد نہیں کرسکتا : 1۔ نہیں ہے تمہارا کوئی اللہ کے سوا دوست اور نہ مددگار۔ (البقرۃ:107) 2۔ نہ ملے ان کو اللہ کے سوا کوئی دوست اور نہ مددگار۔ (الاحزاب :17) 3۔ اللہ کے سوا کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ (ھود : 30، 63) 4۔ نہیں ہے ان کے لیے زمین میں کوئی دوست اور نہ کوئی مدد گار۔ (التوبۃ:74) 5۔ نہیں ہے تمہارے لیے اللہ کے سوا کوئی دوست اور سفارشی پھر تم نصیحت کیوں نہیں حاصل کرتے۔ (السجدۃ:4)