سورة الشورى - آیت 32

وَمِنْ آيَاتِهِ الْجَوَارِ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلَامِ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور اس کی نشانیوں (٢٢) میں سے سمندر میں پہاڑوں کے مانند چلنے والے جہاز ہیں

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 32 سے 35) ربط کلام : جس اللہ کو کوئی عاجز اور بے بس نہیں کرسکتا۔ اسی کی قدرت کا کرشمہ ہے کہ سمندر میں پہاڑوں کی طرح لمبے، چوڑے اور بلندو بالاجہاز دوڑے پھر رہے ہیں۔ قرآن مجید نے متعدد آیات میں سمندر میں چلنے والی کشتیوں کو اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ قرار دیا ہے اور کشتیوں میں سفر کرنے والوں کو اس بات پر غور کرنے کا حکم دیا ہے۔ غور کرو! کہ جو پانی ایک سوئی کا بوجھ برداشت نہیں کرتا وہی پانی ہزاروں ٹن کا بوجھ اٹھائے ہوئے بحری جہازوں اور کشتیوں کو سمندر کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پہنچاتا ہے۔ نزول قرآن کے زمانے میں بادبانی کشتیاں ہوتی تھیں جن کی چوٹیاں دور سے پہاڑوں کی طرح دکھائی دیتی تھیں۔ ان کشتیوں کا دارومدار باد موافق پر تھا۔ اگر کسی وقت ہوا کا رخ مخالف ہوجاتا تو کئی کئی دن تک کشتیاں سمندر کے سینے پر ٹھہری رہتی تھیں۔ بسا اوقات باد مخالف اس قدر تیز اور زور آور ہوتی کہ کشتی کے ملّاح اور اس کے ساتھیوں کو پتوار کو سنبھالنا مشکل ہوجاتا۔ کشتی میں سفر کرنے والے لوگوں کو اپنی جان کے لالے پڑجاتے اور وہ سب کچھ بھول کر صرف ایک الٰہ کو پکارنے پر مجبور ہوتے تھے۔ اس صورت حال کے بارے میں بتلایا جارہا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو کشتیوں کو سمندر کے پانی پر جامد کردے۔ اس صورت میں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جو کشتی کو ساحل سمندر تک پہنچا سکے۔ اگر وہ چاہے تو لوگوں کے باطل نظریات اور برے اعمال کی وجہ سے کشتی کو غرق کردے۔ لیکن یہ اس کا کرم اور حوصلہ ہے کہ لوگوں کی بغاوت کے باوجود ان کی اکثر خطاؤں سے در گزر کرتا ہے۔ کشتیوں کی آمد روفت میں صابر اور شکرگزار لوگوں کے لیے بہت ساسامان عبرت ہے۔ صابر اور شکرگزار لوگوں کی طرف اشارہ فرماکریہ حقیقت واضح کی ہے کہ عبرت وہی شخص حاصل کرسکتا ہے جو مشکل کے وقت صبر کرتا ہے اور آسانی کے وقت اپنے رب کا شکرگزار ہوتا ہے۔ جہاں تک موجودہ ٹیکنالوجی اور جہادرانی کا معاملہ ہے اس میں کوئی شک نہیں۔ ہزاروں (HORSE POWER) رکھنے والے بحری جہاز ہزاروں ٹن بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت کے سامنے یہ اس طرح ہی بے بس ہیں جس طرح بادبانی کشتیاں بے بس ہوجایا کرتی تھیں۔ سمندر میں طغیانی اور طوفان ہو تو آج بھی بحری جہاز کئی کئی دن تک سمندر میں جامد اور ساکت کھڑے رہتے ہیں۔ کپتان اور اس کا عملہ اسی طرح بے بس ہوجاتا ہے جس طرح پرانے زمانے کے ملّاح بے بس ہوجایا کرتے تھے۔ آج بھی جہاز پانی میں غرقاب ہوجاتے ہیں اور آبدوزیں سمندر کی تہہ میں ڈوب جاتی ہیں۔ انہیں کوئی بھی بچانے والا نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ اکثراوقات ان کا ملبہ بھی ہاتھ نہیں آتا۔ بڑی بڑی ترقی یافتہ حکومتیں بھی بے بس دکھائی دیتی ہیں۔ اسی بنا پر فرمایا ہے کہ جو لوگ ” اللہ“ کی آیات کے ساتھ جھگڑتے اور ان کا انکار کرتے ہیں وہ جان لیں کہ جس طرح وہ دنیا میں بے بس ہوجاتے ہیں اس سے ہزار گناہ زیادہ قیامت کے دن بے بس ہونگے اور جہنم کے عذاب سے چھٹکارا نہیں پائیں گے۔ مسائل : 1۔ سمندروں میں بحری جہاز اور کشتیوں کا چلنا اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ چاہے توجہازوں اور کشتیوں کو سمندر میں جامد اور ساکت کردے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کی بہت سی غلطیوں سے درگزر فرما دیتا ہے۔ 4۔ اللہ کی آیات کے بارے میں جھگڑنے والے لوگوں کو جان لینا چاہیے کہ وہ اللہ کی گرفت سے نہیں بچ سکتے۔ تفسیر بالقرآن : قرآن میں کشتیوں کا تذکرہ : 1۔ کشتیوں کا غرق ہونے سے بچنا اللہ کی رحمت کا نتیجہ ہے۔ (یٰسٓ: 43، 44) 2۔ سمندر میں کشتیوں کا چلنا ” اللہ“ کی قدرت کی نشانی ہے۔ (البقرۃ :164) 3۔ کشتیاں دریاؤں میں ” اللہ“ کے حکم سے چلتی ہیں۔ (الحج :65) 4۔ اللہ نے کشتیوں، نہروں، چاند، سورج، دن اور رات کو تمہارے لیے مسخر کردیا ہے۔ (ابراہیم : 32، 33) 5۔ جب وہ کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں تو خالصتاً اللہ کو پکارتے ہیں۔ (العنکبوت :65)