وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
اور تم کمزور نہ (95) بنو، اور غم نہ کرو، اور اگر تم ایمان والے ہوگے تو تم ہی سب سے بلند ہوگے
فہم القرآن : (آیت 139 سے 141) ربط کلام : احد کی ہزیمت کے بعد تسلی دینے کے ساتھ کامیابی کی مشروط ضمانت دی گئی ہے۔ غزوۂ احد میں مسلمانوں کے ستر (70) زعماء شہید ہوئے۔ جن میں شیر دل اور بہادر جوان حضرت حمزہ (رض) بھی شامل تھے جنہوں نے معرکۂ بدر میں سب سے زیادہ کفار کو نقصان پہنچایاتھا۔ انہیں احد میں خاص طور پر نشانہ بنایا گیا۔ ان کی شہادت کے بعد آتش انتقام کو ٹھنڈا کرنے کے لیے کفار نے ان کے جسد اطہر کا مثلہ کیا اور سینہ مبارک چیر کر کلیجہ چبانے کی کوشش کی گئی۔ اس بھاری جانی نقصان کے ساتھ رسول محترم (ﷺ) کی ذات گرامی کو شدید زخم آئے۔ درّہ والوں کی کوتاہی کی وجہ سے یہ سب کچھ آنًا فاناً ہوا۔ اس شدید نقصان کے بارے میں مسلمان سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ خاص کر ایسے مجاہد جنہوں نے ایک سال پہلے بدر میں کفار کی کمر توڑ دی تھی۔ اس صورت حال پر انتہائی مغموم اور دل گرفتہ ہوئے۔ یہاں ان کی ڈھارس بندھانے اور ان کا حوصلہ بلند رکھنے کے لیے تسلی دی گئی ہے کہ غمزدہ ہونے اور کمزوری دکھانے کی ضرورت نہیں ہم لوگوں کے درمیان گردشِ ایّام کرتے ہیں۔ مجاہد کا ہارنا‘ شہسوار کا گرنا‘ اقتدار کا چھننا‘ جوان کا بوڑھا ہونا‘ تندرست کا بیمار پڑنا‘ امیر کا غریب ہونا‘ غریبوں کو تونگر بنانا‘ کمزوروں کو طاقت بخشنا‘ اوقات کا تبدیل ہونا‘ ایّام کا بدلنا اور قوموں کا عروج و زوال ہماری مشیّت و حکم کا مظہر ہے تاکہ لوگوں کو اللہ کی قدرت وسطوت کا اعتراف ہوتا رہے۔ ہاں ہمیشہ تم ہی سربلند رہو گے بشرطیکہ تم ایمان کے تقاضے پورے کرتے رہو۔ رہی بات تمہیں زخم پہنچنے کی تو اس سے بڑھ کر تم انہیں بدر کے میدان میں زخمی کرچکے ہو۔ وہ شدید زخمی ہونے، جانی ومالی نقصان اٹھانے کے باوجود ہمت نہیں ہارے بلکہ اس سے کئی گنا پرجوش ہو کر تم پر حملہ آور ہوئے ہیں۔ تمہارے پاس حوصلہ ہارنے اور غیر معمولی افسردہ ہونے کا کیا جواز ہے؟ یہ تو گردشِ ایّام ہے جس کو لوگوں کے اعمال اور کردار کی وجہ سے ہم پھیرتے رہتے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ مومنوں کو ممتاز کر کے ان سے منافقوں کو الگ کر دے۔ تم میں سے کچھ لوگوں کو شہادت کے درجے پر فائز فرما دے۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں کٹ مرنے والا اپنے خون جگر سے عملاً اللہ کے کلمہ کو بلند رکھنے کی گواہی دیتا ہے اس لیے اسے شہید کہا جاتا ہے۔ امام رازی (رض) فرماتے ہیں کہ قرآن و حدیث کے مطابق مرنے کے بعد مومنوں کی ارواح مقام علّیّین میں ہوتی ہیں لیکن شہداء کی ارواح اللہ تعالیٰ کے عرش معلّٰی کے نیچے ہوتی ہیں۔ اس لحاظ سے وہ قیامت سے پہلے ہی اپنے رب کے حضور حاضر ہوتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں شہید کہا جاتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر رہنے والے۔ مفسّرین نے اللہ تعالیٰ کا منافقوں کو جاننے کا معنٰی ان کو لوگوں کے سامنے ظاہر کرنا لیا ہے۔ عربی میں اس طرح کلام کرنے کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ جب کہ اللہ تعالیٰ علیم و خبیر ہے اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔ مسائل : 1۔ مسلمانوں کو کسی حال میں غمگین اور سست نہیں ہونا چاہیے۔ 2۔ مسلمان اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں تو ہمیشہ سر بلند رہیں گے۔ 3۔ احد میں مسلمانوں کو زخم آئے ان کے مقابلہ میں کفار بدر میں زیادہ زخمی ہوئے تھے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے درمیان دن پھیرتے رہتے ہیں۔ 5۔ اللہ تعالیٰ کافروں کو مٹانا اور مومنوں کو ممتاز کرنا چاہتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ کا حکم اور مومن سر بلند رہیں گے : 1۔ اللہ کا حکم بلند رہے گا۔ (التوبۃ:40) 2۔ مومن ہی ہر حال میں بلند رہیں گے۔ (آل عمران :139) 3۔ مومن اللہ کا لشکر ہیں اور غالب رہیں گے۔ (المجادلۃ:22) گردشِ ایّام : 1۔ بدر میں مومنوں کو فتح ہوئی۔ (آل عمران :123) 2۔ احد میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ (آل عمران :140) 3۔ احزاب میں مسلمان فاتح ہوئے۔ (الاحزاب : 25تا27) 4۔ مکہ میں فتح یاب ہوئے۔ (الفتح :1) 5۔ حنین میں تکلیف دیکھنا پڑی۔ (التوبۃ:25)